پاکستان علماء کونسل و انٹرنیشنل تعظیمِ حرمین شریفین کونسل نے 22مئی 2020ء جمعۃ الوداع کو یومِ عظمتِ حرمین شریفین والاقصیٰ منانے کا اعلان کیا ہے۔
اس موقع پر ملک بھر میں علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء جمعۃ المبارک کے اجتماعات میں کشمیر و فلسطین سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کریں گے اور حرمین شریفین کی عظمت، دفاع اور سلامتی کیلئے تجدیدِ عہد کریں گے اور دنیا کو یہ باور کرائیں گے کہ حرمین شریفین وحدتِ امت کے مراکز ہیں، کوئی مسلمان ان کے دفاع و سلامتی سے غافل نہیں ہو سکتا۔
یہ دن ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو بھرپور جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، ملک بھر میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے امسال چونکہ کورونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے پیش نظر پاکستان میں عوامی اجتماعات پر پابندی عائد ہے، مساجد میں ایس او پیز کے تحت جمعہ کے محدود اجتماعات ہو رہے ہیں۔
اس لئے امسال یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے خطبات میں علماء و مشائخ، آئمہ و خطباء عظمتِ حرمین شریفین و الاقصیٰ کے حوالے سے خصوصی بیان کریں گے۔ لمحہ موجود میں عالم اسلام جن مسائل اور مصائب کا شکار ہے، ان کا بنیادی سبب اسلامو فوبیا، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور اسلامی ممالک میں بیرونی مداخلتوں کو سمجھا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ روز و شب عالم اسلام کے مستحکم ممالک کمزور ہو رہے ہیں۔
انتہا پسند اور اسلامو فوبیا کا شکار گروہ اسلام اور مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ عالم اسلام کی وحدت اور اتحاد کا مرکز مقدساتِ اسلامیہ ہیں اور حرمین شریفین اور الاقصیٰ اسلامی وحدت اور اخوت کی بنیاد ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان علماء کونسل کی یہ کوشش رہی ہے کہ عالم اسلام کے تمام طبقات میں بالعموم اور علماء، مفکرین اور دانشوروں کے طبقے میں بالخصوص اس بات کو عام کیا جائے کہ عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے اور اسلامی مقدسات کے تحفظ، بقا اور سلامتی کیلئے امت میں اختلافی مسائل کے بجائے وحدت اور اتحاد کو فروغ دیا جائے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم ممالک کو کمزور کرنے کیلئے انتہا پسندی، فرقہ واریت اور اسلامو فوبیا کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے اس نے شام، عراق اور یمن کو ہی تباہ نہیں کیا بلکہ عالم اسلام کے ان ممالک کو جو بہت مستحکم اور طاقتور تھے، کو بھی کمزور کیا ہے۔
ایک طرف فلسطین اور الاقصیٰ کا معاملہ ہے جس کیخلاف اسرائیل اور امریکہ بھرپور جارحیت کر رہے ہیں، دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے جہاں دنیا کا طویل لاک ڈائون لگا کر بھارت کی نو لاکھ غاصب فوج نے پوری وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے، مظلوم کشمیریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
پھر سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی وحدت اور اتحاد کے مرکز حرمین شریفین پر مسلسل حملے کئے جا رہے ہیں۔ جس وقت ساری دنیا کورونا سے لڑ رہی ہے اس وقت میں بھی سعودی قیادت کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ارضِ حرمین شریفین کو غیر محفوظ کرنے کیلئے عالمی قوتیں حوثی باغیوں کی سر پرستی کر رہی ہیں۔ مملکت سعودی عرب جو عالم اسلام کی مضبوط ترین قوت اور مسلمانوں کے مقدسات کا مرکز ہے، گزشتہ کئی سالوں سے حوثی باغیوں کے حملوں کی زد میں ہے۔
پاکستان علماء کونسل انتہا پسندی، اسلامو فوبیا، دہشت گردی اور فرقہ واریت کیخلاف اور ارض حرمین شریفین کے دفاع، سلامتی اور استحکام کیلئے اور الاقصیٰ و کشمیر کی آزادی اور بڑھتے ہوئے اسرائیلی و بھارتی مظالم کے خلاف 20رمضان المبارک سے 30رمضان المبارک تک ’’عشرہ تحفظ ارض حرمین شریفین و الاقصیٰ منا رہی ہے۔
جس کا بنیادی مقصد پوری امت کی طرف سے متفقہ طور پر الاقصیٰ اور حرمین شریفین کی دشمن قوتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ مسلم امہ کسی بھی صورت اپنے مقدسات کے دفاع اور سلامتی کو نہیں بھول سکتی۔
اسی طرح فلسطین سے لے کر کشمیر تک اور شام سے لے کر یمن تک مظلوم مسلمانوں کو بھی پیغام دینا ہے کہ آپ تنہا نہیں۔ پوری مسلم امہ تمام تر کوتاہیوں کے باوجود آپ کے ساتھ ہے۔
مسلم امہ نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یومِ تحفظِ ارضِ حرمین شریفین و الاقصیٰ منانے کا فیصلہ کرکے درست سمت کی طرف قدم بڑھایا ہے جس کا بنیادی مقصد حرمین شریفین اور اقصیٰ کے ساتھ اپنی محبت اور یکجہتی کا اظہار ہے۔
اسی طرح فلسطین کے مسئلہ پر کچھ اسلامی ممالک کا دہرا کردار بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتا اور فلسطین دشمن قوتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ الحمدللّٰہ پاکستان اور سعودی عرب 2اسلامی ممالک میں سے مستحکم ملک ہیں جن کا اسرائیل کے ساتھ کوئی تجارتی، سفارتی رابطہ نہیں اور جنہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ان کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان نے ہمیشہ ان کو یقین دلایا ہے کہ مملکت سعودی عرب کوئی بھی فیصلہ فلسطین کی حکومت اور عوام کی مرضی اور منشا کے خلاف نہیں کرے گی۔
ابھی حال ہی میں سعودی عرب کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران کورونا وائرس سے متاثرہ مسلم ممالک اور عالمی دنیا کی امداد عظیم انسانی خدمت ہے جس نے انسانیت اور مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔
عالم اسلام اس وقت مصائب اور مسائل کا شکار ہے اور ان مصائب اور مسائل سے نکلنے کا راستہ بے بنیاد پروپیگنڈا نہیں بلکہ سر جوڑ کر، بیٹھ کر عملی اقدامات کرنا ہے اور ان عملی اقدامات کیلئے سب سے پہلا قدم باہمی اتحاد سے مسائل کے حل کی طرف توجہ کرنا ہوگا۔
سعودی عرب کیخلاف مسلسل حوثی باغیوں کے بڑھتے ہوئے حملے اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت، کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی‘ یہ تمام چیزیں مسلم امہ کو دعوت دیتی ہیں کہ سر جوڑ کر ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جس سے مسلمانوں کو ظلم و بربریت سے نجات دلائی جائے، اپنے مقدسات کو محفوظ بنایا جائے۔
انتہا پسندی، اسلامو فوبیا کا سدباب کیا جائے اور نوجوان نسل کو اسلام اور جہاد کے نام پر دہشت گردی کی طرف راغب کرنے والی قوتوں کے سامنے باہمی اتحاد سے مقابلہ کرنے کیلئے کھڑا ہوا جائے۔