• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی _… تنویرزمان خان، لندن
امریکی صدرٹرمپ نے کورونا وائرس کی وبائی شکل اختیار کرنے کی ذمہ داری چین پر ڈالنا شروع کردی ہے اور اپنی کوتاہیوں کی ذمہ داری سے توجہ ہٹانے کیلئےبڑے جارحانہ انداز میں چینی صدر زی پنگ کے خلاف بیان بازی شروع کردی ہے۔ یہ ٹرمپ کا دھونس بازی کا معمول کا طریقہ کار ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ چین کو بہت شروع میںاس وائرس کا علم ہوچکا تھا لیکن ا س نے دنیا سے چھپا یا حتیٰ کہ یہ ایک عالمی وبائی صورت اختیار کرگیا۔ حالانکہ ٹرمپ بھی اس غفلت کے رویے کا اتنا ہی مجرم ہے جنتا کہ زی پنگ۔ بلکہ عام خیال ہے کہ ٹرمپ کے اندر وہی آمرانہ اور سخت گیر رویے پائے جاتے ہیں جو کہ کسی بھی فسطائی مزاج آمرکا خاصہ ہوتا ہے ۔ ٹرمپ شروع میں تو چین میں وائرس کے خلاف کاوشوں میںچین کی بہت تعریفیں کرتا رہاچین کی وائرس کنٹرول مہم کو مثالی قرار دیتا رہا۔ ویسے بھی امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر ٹرمپ کو اس سال کے شروع میں ہی بارہاکورونا کے خطرے سے آگاہ کیا تھا بلکہ ایک امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سابقہ افسر نے ٹرمپ کو جنوری اور فروری میںمسلسل اس آنے والے وائرس کی خطرناکی سے آگاہ کیا تھا جس کی چین میںپہلی مرتبہ دسمبر2019میں رپورٹ کی گئی تھی بلکہ ٹرمپ کو اس پھیلاؤپر اپنے ردعمل کی وجہ سے کئی اطراف سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا۔ اس وقت نوے ہزار سے زائد اموات پرٹرمپ کی غلط حکمت عملی پر تنقید کی جارہی ہے کیونکہ ماہرین ٹرمپ کے ابتدائی مہینوں میںلاؤ بالی پن کی وجہ سے ہزاروں جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار سمجھتے ہیںاور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جنوری، فروری میںہی ٹرمپ نے وائرس کے خلاف صحیح حکمت عملی اپنائی ہوتی تو آج امریکہ کورونا سے اموات میں بلند ترین سطح پر نہ ہوتا۔ ٹرمپ ایک من موجی قسم کا لاؤ بالی مزاج والا صدر ہے۔ اسے ٹویٹ کے ذریعے پالیسی، احکامات یا اپنے خیالات دینے کا بہت شوق ہے۔ اپنے اقتدار میںآنے کے بعد سے لیکر ابھی تک ٹرمپ نے سترہ ہزار ٹوئٹس کی ہیں جو اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ اس کے کئی مشیروں نے اسے سمجھایا کہ اسے کوئی بات ذہن میں آتے ہی فورا ٹوئٹ نہیں کردینی چاہیے کیونکہ اس سے بہت دفعہ حکومت کی خاصی سبکی ہوتی ہے ۔کوروناوائرس پر ٹرمپ نے بارہا سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور اپنے مشیروں کی مشاورت اور سفارشات کو رد کیا ۔ اب امریکہ میںاس طرح سے کاروبار کھولے گئے اور لاک ڈاؤن کو نرم کیا گیا ہے کہ لوگ سمجھیں کہ گویا وائرس کا وجود ہے ہی نہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو ٹرمپ نے امریکہ میںوائرس کی تصدیق ہونے کے بعد بھی اپنی پالیسیوں میں روا رکھا تھا۔ ٹرمپ دراصل اس دنیاپر ایک بڑا عذاب ہے۔ وہ ایک ارب پتی بزنس مین ہے جسے انسانوں سے کوئی غرض نہیں۔ دراصل اکثر ارب پتیوں کی عجیب سی سوچ ہوتی ہے۔ وہ اپنی ضرورت کیلئے پیسہ نہیں جوڑتے بلکہ وہ اس مقام پر ہوتے ہیں جہاں پیسہ روزانہ آرہا ہوتا ہے کہ ان کے پاس اسے خرچ کرنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی ۔ اب وہ پیسے سے دنیا کو کنٹرول کرنا چاہ ر ہے ہوتے ہیں۔ ٹرمپ بھی کچھ اسی طرح کی دماغی صورتحال سے دو چار ہے۔ بلکہ سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ نے ٹرمپ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے تاریخ کی بدترین Disinformationپھیلائی ہے۔ اس کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اس قسم کے جرائم کا مرتکب ہوچکا ہے۔ اس کی غلط حکمت عملی کے سبب اموات میں اضافہ ایک طرف ہے جبکہ دوسری طرف ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگ بے روز گار کے طور پر رجسٹرہوچکے ہیں۔ اقتصادی ماہرین موجودہ بحرانی صورتحال سے شدید پریشان ہیں اور ٹرمپ غیر سائنسی رویوں کو بڑھاوا دے رہا ہے۔واشنگٹن پوسٹ کی جانب سے حالیہ کئے گئے سروے میں 56فیصدلوگوں نے ٹرمپ کی کورونا کی جانب سے پالیسی کو رد کیا ہے۔ ٹرمپ نے تو اپنی ہی وائٹ ہاؤس کی وائرس ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر فوسیFauciکی اس تجویز کو بھی مسترد کردیا جس میں انہوں نے ٹرمپ کی لاک ڈاؤن نرم کرنے کی پالیسی کو رد کیا ہے۔ امریکہ کے سیاسیات کے پروفیسر شری برمن جنہیں جمہوریت اور فسطائیت کے موضوع پر مستند سمجھا جاتا ہے ۔ا نہوں نے Insiderکو انٹرویو میںکہاکہ وائٹ ہاؤس سے متضاد بیانات نے عوام کو کنفیوژ کردیا ہے اور سازشی تھیوریاں تقویت پکڑرہی ہیں ۔حالانکہ ایسے بحرانوں میںجمہوریتوں کو آمریتوں سے بہتر نتائج دینے چا ہئیں لیکن ٹرمپ نے جمہوری اصولوں کو خوب پامال کیا ہے۔ ماحولیات کے ٹرمپ علیحدہ سے خلاف ہے۔ ماحولیات پر عالمی پیرس معاہدے کو اس نے آتے ہی خیرباد کہہ دیا تھا۔ ماحولیات کے بگڑنے پر اس کا خیال ہے کہ یہ ایک چینی سازش ہے ورنہ دنیا میںماحولیات کوئی ایشو ہی نہیں۔ اس طرح سے دنیا کی ایک سپر پاور ایک ایسے غیر ذمہ دار شخص کے ہاتھ میں ہے جو نہ تو اپنے پس منظر میں سیاسی تربیت یافتہ ہے۔ نہ ہی بڑا بزنس مین ہونے کی وجہ سے اسے پیسہ بنانے کے علاوہ کچھ اور سجھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روز اول سے ہی لاک ڈاؤن کے کیخلاف رہا ہے اور ہزاروں لوگوں کی اموات کو بھی گھاٹے کا سودا نہیںمانتا۔ ٹرمپ نہ صرف امن بلکہ دنیا کی سلامتی اور بہتری کیلئے شدید خطرہ ہے جو آئے دن کسی نہ کسی ملک کو بٹن دبا کے صفحہ ہستی سے مٹادینے کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ اب جبکہ حالیہ کورونا روائرس نے ماحولیات کو توازن میں رکھنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے اور ہمیںماحولیات کو درست رکھنے کیلئے نئے نئے درس مل رہے ہیں بلکہ دنیا کو ایٹم بم جیسی دوڑ سے دور رکھنے کی ضرورت کا احساس شدت پکڑنے لگا ہے۔ ان تمام چیزوں کی وائرس سے پہلے دنیا کی نظروںمیں کوئی خاطر خواہ اہمیت نہیںتھی ، اب وائرس کے حملوں کے بعد جب دنیا نئی سیٹ اپ میں جائے گی تو اس سیٹ اپ میں سترفیصد نیا پن ماحولیات سے ہی جڑا ہوا ہوگا۔ اقتصادی حوالے سے تو مجھے کساد بازاری کے علاوہ اور کوئی خاطر خواہ تبدیلیاں ہوتی نظر نہیں آتیں۔ البتہ پوری دنیا جس بڑے تجربے سے گزر رہی ہے اس میںہمار ارہن سہن یقینا بڑے پیما نے پر متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔
تازہ ترین