• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں کورونا کے اثرات کی مشکل ترین صورتحال کے باوجود ملک بھر کے کاروباری اداروں کو کھولنے اور کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس حوالے سے اب حکومت اور بالخصوص صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تاجروں اور عوام کی ذمہ داری بن گئی ہے کہ وہ احتیاط کے متعین کردہ ضوابط کی خلاف ورزی نہ کریں ورنہ عید کے بعد صورتحال ان سب کے لئے کوئی پریشانی پیدا کر سکتی ہے۔ اس وقت تو مارکیٹوں میں بےپناہ رش سے ایسے لگ رہا ہے کہ کورونا نے ہمارے معاشرے اور عوام پر کوئی اثر نہیں کیا ہے اور نہ ہی قوم کی اکثریت نے اس کا اثر محسوس کیا ہے، کاش ہمارے ہاں صحت اور کاروبار دونوں کو ایک ساتھ سنجیدگی سے لیا جائے تو سب کے لئے بہتر ہے۔

اسلام آباد میں نئے مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں جاری ہیں، حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نیا بجٹ کورونا فری بجٹ اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے کیا جائے، اس سلسلہ میں حکومت تو کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ معاشی حالات کے پس منظر میں عوام پر مزید کوئی بوجھ کچھ عرصہ کے لئے نہ ڈالا جائے، لیکن لگتا ہے کہ اگلے سال 2021میں جنوری سے جون کے عرصہ میں کئی ٹیکس اصلاحات کے ذریعے عوام پر کچھ بوجھ ڈالا جائے گا لیکن اس سلسلہ میں عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ عید کے موقع پر غیر ضروری اخراجات سے گریز کریں تو ان کا فائدہ اس لئے ہو گا کہ آنے والے دنوں میں معاشی حالات کے پس منظر میں عوام کو اخراجات میں کمی اور بچت کی عادت ڈالنا ہوگی۔ اس لئے کفایت شعاری کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے حکومت اور عوام دونوں کو اپنی اپنی ضروریات اور ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ حکومت اگر ہر سطح پر اخراجات میں بچت کرتی ہے تو اس سے قومی وسائل کا ضیاع روکا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف عوام بچت کریں گے تو ان کے گھریلو اخراجات اور آمدنیوں میں توازن قائم ہو جائے گا اس لئے کہ کئی وجوہات کی بنا پر ہر گھرانے کا بجٹ عدم توازن کا شکار ہے۔ امیروں کے اپنے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور غریبوں کی اپنی مشکلات ہیں۔ اگر یہ صورتحال خدانخواستہ زیادہ دیر برقرار رہتی ہے تو ملک میں سماجی اور معاشی مسائل پریشان کن حد تک بڑھ سکتے ہیں۔ اس لئے قومی سطح پر کوئی ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے حکومت اور عوام دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور ملک میں کفایت شعاری کے رجحان کی حوصلہ افزائی ہو۔ ہمارے ملک میں تو ویسے ہی بچت کا کوئی رواج نہیں ہے اور لوگ کسی کے کہنے پر اپنے گھریلو یا سماجی اخراجات میں کمی کا مشورہ قبول کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ کاش کم از کم کورونا کی پریشانیوں سے ہم کوئی سبق حاصل کر کے ہی اپنے اپنے رویوں میں بہتری لانے کی طرف راغب ہو جائیں۔

تازہ ترین