• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معروف یورپین پولیٹکل فلاسفر اورجہانبانی و جہانداری کے اسرار و رموز پر مشتمل کتاب ”دی پرنس“ کے مصنف میکاولی نے کہا تھا کہ ”لیڈر پیدا ہوتے ہیں، بنائے نہیں جاتے کوئی شخص یا تو لیڈر ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا“۔ برصغیر میں کسی بھی شعبے کی بات ہو تو بھارت کے ساتھ موازنہ لازم و ملزوم ہو جاتا ہے۔ دونوں ملکوں میں سیاست کے شعبے میں دو خاندانوں نے بہت شہرت پائی ہے۔ پاکستان میں بھٹوز اور بھارت میں نہروز اور تاریخ کی ستم ظریفی کہ نصیب بھی دونوں نے کم و بیش ایک جیسا پایا۔ دونوں خاندانوں میں اور بھی کئی مماثلتیں ہیں۔ میکاولی کے قول کو سامنے رکھیں تو حقیقت کھلتی ہے کہ دونوں خاندانوں میں نیچرل لیڈر بھی صرف دو ،دو ہی ہوئے ہیں۔ جواہر لال نہرو اور اندرا، اور ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر۔ اندرا کے چھوٹے بیٹے سنجے میں بھی جرثومے موجود تھے مگر موت کے بے رحم ہاتھوں نے اسے موقع نہیں دیا۔ سنجے کے کلاس ٹیچر کے ساتھ کوئی محکمانہ زیادتی ہوئی، شاید انکریمنٹ رکا تھی یا پرومومشن کا مسئلہ تھا۔ اس نے یہ کہہ کر تسلی دی تھی کہ سر! ذرا دھیرج رکھیں، مجھے پردھان منتری بن لینے دیں، سب کسر نکال دوں گا۔ اندراجی سنجے کی صلاحیتوں سے خوب آگاہ تھیں اور بڑے چاؤ سے راج نیتی کیلئے تیار کر رہی تھیں۔ کسی نے بڑے صاحبزادے راجیو کے استحقاق کی بات کی توبے بسی سے بولیں ”میں کیا کر سکتی ہوں؟ اسے تو انڈین ایئرلائن کی نوکری اور بدیسی بیوی سے ہی فرصت نہیں۔ پھر تقدیر کا چکر چلا،1980ء میں سنجے حادثاتی موت کا شکار ہو گیا،تو اندراجی کا صدمہ دہرا تھا۔ جوان بیٹے کی المناک موت کے ساتھ ساتھ سیاسی جانشینی کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔ جب خاندان صدمے کی کیفیت سے کسی حد تک نکل چکا تو ایک شب اندراجی نے راجیو سے مدعا کہہ سنایا، کہ نہروز کی سیاسی وراثت کو اب اسے آگے لیکر چلنا ہے۔ راجیو نے بڑی سادگی سے کہا تھا ”مجھے تو جہاز اڑانے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں، راج نیتی کی باتیں سر سے گزر جاتی ہیں۔ تقریر تو دور کی بات، چار بندوں سے بھی مخاطب ہوں تو ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ ایسے میں مجھے ووٹ کون دے گا، خواہ مخواہ کی جگ ہنسائی ہو گی۔ اندراجی کا جواب دلچسپ تھا۔ ”اس کی تم فکر نہ کرو۔ نہروز اور گاندھیز کی کمائی (سیاسی) تمہاری پشت پر ہو گی اور اندراجی کی ہلاکت کے بعد یہی شرمیلا اور اندرون بین، راجیو پانچ برس تک بھارت کا وزیراعظم رہا۔ میکاولی کے پیمانوں پر راجیو پورا نہیں اترتا تھااور اب اس کے بیٹے راہول کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے مگر اس کا پرابلم کچھ دوسری نوعیت کا ہے۔ وہ ایک دھیمے مزاج اور روٹین کا آدمی ہے جو اپنی زندگی جینا چاہتا ہے اور جسے راج نیتی کی چکا چوند سے کچھ غرض نہیں، وہ تو اپنے باپ کی وزارت عظمیٰ کے زمانے میں بھی دکھی اور پریشان رہا کرتا تھا اور بڑی حسرت سے اس وقت کو یاد کرتا جب ڈیڈ ائیر انڈیا میں پائلٹ تھے اور وہ سب بے فکری کی زندگی گزارا کرتے تھے۔ پے در پے کی خاندانی المیوں نے اسے اندر سے کھوکھلا اور بڑی حد تک بزدل بھی بنا دیا ہے۔ جس کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ وہ شعوری طور پر ”تباہی“ کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں۔ چنانچہ سیاست پر اس نے ایک بڑا کراس کھینچ رکھا تھا۔ جب بھی اس موضوع پر گفتگو ہوتی، تو وہ بات کو ٹال دیتا اور لمبے ٹورز پر یورپ کی طرف نکل جاتا تھا مگر نہروز کی وراثت کو بھی تو آگے چلانا تھا اور فیملی پولیٹکل پارٹی ہونے کے ناتے کانگریس کی مجبوری یہ ہے کہ سیاسی وراثت خاندان میں ہی رہے۔ لے دے کر نگاہ راہول پر ٹکتی تھی ، سو بالآخر بیچارہ پھنس گیا۔ 20 جنوری2013ء کو جے پور میں ہونے والے پارٹی کنونشن میں نائب صدر منتخب ہو گیا اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اگلے برس ہونیوالے عام انتخابات میں کانگریس پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار بھی وہی ہوگا۔اس موقع پر راہول کی تقریر اپنے اندر ایک جہان معانی لئے ہوئے ہے۔ بولے ”آپ سب نے مجھے مبارک باد دی، پرائم منسٹر صاحب نے بھی اور میری ماں نے بھی، جو کل رات دیر تک میرے کمرے میں بیٹھی رہیں اور روتی رہیں کیونکہ ان کے ماضی کے سارے زخم کھل گئے تھے۔ دنیوی منصب اور عہدے کچھ معنی نہیں رکھتے۔ لوگ اقتدار کی حقیقت کو سمجھے بغیر خواہ مخواہ اس کے پیچھے باؤلے ہوئے پھرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو فی الحقیقت زہر ہے۔ انتہائی مہلک زہر، جو اپنے پیچھے بھاگنے والوں کی رگوں میں اتر جاتا ہے، اس کا اگر کوئی تریاق ہے تو محض یہ کہ اسے خلق خدا کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جائے، لوگوں کو ایمپاور کیا جائے، اپنی ذات کے لئے اقتدار کو استعمال کرنے والے بیشک خسارے میں رہتے ہیں“۔ اپوزیشن والے راہول کے اس بھاشن کا ٹھٹھا اڑا رہے ہیں، سادھو سنیاسی کی پھبتیاں کسی جا رہی ہیں کہ اگر واقعی تمہاری یہی سوچ ہے تو بن باس کیوں نہیں لے لیتے؟
وطن عزیز میں الیکشن کی گہما گہمی زور پکڑ رہی ہے اور بلاول منظر سے غائب ہے۔ وجہ گھریلو چپقلش ہے یا سیاسی، ہمیں اس سے کیا لینا دینا؟ وہ واپس آتے ہیں یا نہیں، ہمیں اس سے بھی غرض نہیں۔ البتہ میکاولی کی بات ضرور یاد آرہی ہے کہ لیڈر ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا، بنایا ہر گز نہیں جا سکتا۔ کیا پارٹی والوں کو یقین ہے کہ بلاول واقعی لیڈر ہے؟ کیا وہ واقعی پارٹی کو اون کرتا ہے اور اس کو لیڈ کرنے کے لئے پرعزم ہے؟ یا پھر یہ پیپلزپارٹی کی مجبوری ہے، جو کسی بھٹو کے بغیر نان اسٹارٹر ہے۔ خواہ وہ مینو فیکچرڈ ہی کیوں نہ ہو۔ خود غرضی کی اس فضا میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلے پانچ برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ۔ بلاول اب ایک جدید تعلیم یافتہ، جہاندیدہ اور روشن خیال نوجوان ہے۔ جس کیلئے پارٹی کی مجبوریاں کم اور اپنا مستقبل کہیں زیادہ اہم ہے۔ جو شاید پاکستانی سیاست کے ساتھ جڑا ہوا نہیں ہے۔ اسے اس بات کا بھی احساس ہو چکا کہ مانگے تانگے کے ٹائٹلز، نام اور شجرے محض بچگانہ باتیں ہیں۔ بھٹوز میں سے زرداریوں نے جو نچوڑنا تھا، نچوڑ چکے مزید کی گنجائش نہیں رہی۔ بلاول کو ہی نہیں بختاور اور آصفہ کو بھی یہ احساس ہو چکا۔ غالباً سنجے کا قصہ ان کی نظر سے گزر چکا۔ ”پرائم منسٹر نہرو کے گھر میں رہنے والے نہرو کے نواسے سنجے کو کلاس ٹیچرز نے سہواً نہرو کہہ کر پکارا تو برخوردار بگڑ گیا تھا۔ بولاجناب میرا شجرہ تو نہ بدلیں، میں نہرو نہیں ہوں، گاندھی ہوں اور اس پر فخر کرتا ہوں۔
تازہ ترین