• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: کونسلرحنیف راجہ۔۔ گلاسگو
کنزرویٹو پارٹی میں اگرچہ ہر طبقے کے افراد شامل ہیں اور اس کے کئی وزرائے اعظم مڈل کلاس سے رہے ہیں لیکن بنیادی طور پر اسے
مراعات یافتہ طبقے کی نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف برطانیہ بلکہ شاید دنیا کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی ہے جو سر رابرٹ پیل نے1834میں بنائی تھی پھر1860ء میں گلیڈ سٹون نے لبرل اور1900میں جیمز کیئر نے لیبر پارٹی کی بنیاد رکھی، جوکہ مزدور اور پسے ہوئے طبقوں کی بات کرتی تھی، کنزرویٹو پارٹی میں اندرونی طور پر بھی خاصا تغاوت ہے، ایک طرف مڈل کلاس کے لوگ ہیں تو دوسری طرف وہ بڑے بڑے سرمایہ دار، جاگیردار اور صنعت کار خاندان ہیں جن کی اپنی ایک الگ دنیا ہے، کابینہ میں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ اداروں سے پڑھے ہوئے وزراء خود کو بدتر سمجھتے ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ دنیا بھر میں جمہوریت کی ماں کا درجہ دیا جاتا ہے، جس کا سفر1215ء میں میگنا کارٹا سے شروع ہوتا ہے، یہاں احتساب کا عمل اعلیٰ ترین سطح سے شروع ہوتا ہے، ایک عام آدمی کی جو غلطیاں نظر انداز کردی جاتی ہیں، کسی ذمہ دار عہدے پر بیٹھے شخص کی اس غلطی کو بخشا نہیں جاتا اور اس سلسلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کی بھی پروا نہیں کی جاتی، اس عمل نے یہاں اداروں کو بہت زیادہ مضبوط کردیا ہے، ابھی حال ہی میں ایک ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے جس سے حکومت کی نیک نامی پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور وہ وزیراعظم بورس جانسن کے سب سے سینئر ایڈوائزر ڈومینک کمنگ کا ہے، جو کورونا کے حالیہ لاک ڈائون کے دوران اپنی بیوی اور چار سالہ بچے کے ہمراہ260میل کا سفر کرکے لندن سے اپنے والدین کے ہاں درہم گئے جب کہ کورونا کی گائیڈ لائن کے مطابق کسی کو کورونا کی نشانیوں کا شک ظاہر ہونے پر گھر میں ہی رہنا چاہیے تھا، مسٹر کمنگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس وجہ سے یہ لمبا سفر کیا کہ کورونا کی صورت میں ان کے بچے کے لیے وہاں نگہداشت کی سہولت میسر تھی، بے شمار لوگوں نے کہا کہ وہ مسٹر کمنگ کی طرف سے دی گئی وضاحت سے بے خبر تھے، ان کے کئی قریبی عزیز تک فوت ہوگئے اور وہ ان کی آخری رسومات تک میں بھی شرکت نہ سکے، مسٹر ڈومینک کمنگ کا طریقہ کار اور سفر شاید غیر قانونی نہ ہو، لیکن اس پر عوامی غم و غصے کا ایک بڑا طوفان اٹھا، اسکاٹش نیشنل پارٹی کی طرف سے ان کی برطرفی کا مطالبہ سامنے آیا۔ جنرل ڈیمو کریٹ کے سربراہ نے اس تمام معاملے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کو ناقابل قبول قرار دیا، لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر اسٹارمر نے کہا کہ مجھے خوف ہے کہ مسٹر ڈومنک کمنگ کے اس جواز سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اگر کمنگ قوانین سے بچے کے لیے اپنی تشریح کرکے بچ سکتے ہیں، تو ہم اس پر عمل کیوں کریں لیکن وزیراعظم بورس جانسن تمام عوامی جذبات اور سیاسی رہنمائوں کی تنقید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کمنگ کی مکمل پشت پناہی کرتے رہے، کمنگ کا ہی اصرار تھا کہ انہوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، بلاشبہ ڈومینک کمنگ ایک بڑا دماغ ہے، جنہوں نے بریگزٹ کی مہم کی سربراہی کی اور نارتھ آف انگلینڈ جو لیبر کا بڑا گڑھ تھا وہاں سے ووٹ لے کر صورت حال پانسہ بدل دیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وزیراعظم اپنے سیاسی مفاد پر قومی مفاد کو دائو پر لگا دیں، بورس جانسن کی خود اپنی پارٹی میں بھی اس واقعہ پر شدید ردعمل ہوا، ان کی کابینہ میں اسکاٹ لینڈ آفس کے وزیر ڈگلس رس نے بھی اس پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ وہ اپنے حلقے کے افراد کی طرف ہونے والی تنقید کا دفاع نہیں کرسکتے، کنزرویٹو پارٹی کے40سے زیادہ ممبران نے ڈومینک کمنگ کے استعفیٰ پر زور دیا لیکن بورس جانسن نے صاف کہہ دیا کہ وہ اپنے مشیر کے خلاف کوئی بھی انکوائری نہیں کرائیں گے اور اس معاملہ کو میری طرف سے ختم سمجھیں، دریں اثناء ڈومینک کمنگ کے ایک دوسرے سفر جس میں وہ درہم سے اپنے والدین کے گھر سے30میل دور ایک کھیل میں گئے تھے، اس پر شدید احتجاج شروع ہوا، جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے ایک بڑی دلچسپ وجہ بتائی کہ چونکہ ان کی نظر کا مسئلہ ہے، چنانچہ وہ یہ چیک کرنے کے لیے وہ لندن تک لمبا سفر باآسانی کرسکتے ہیں، وہ ٹرائل کے طور پر اس تفریحی مقام تک گئے تھے، اس تاویل پر مسٹر ڈومینک کمنگ کی زبردست جگ ہنسائی ہوئی اور اس درہم پولیس جس نے اس واقعہ کی تفتیش کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ دوسرے سفر میں شاید انہوں نے قوانین کی ہلکی سی خلاف ورزی کی ہے، لیکن وہ ایسی نہیں کہ ان کو چارج کیا جاسکے، اگر پولیس بالفرض ان کو سفر کے دوران روک لیتی تو واپس بھیج دیا جاتا، آنکھوں کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگر ڈومینک کمنگ کو آنکھوں کا مسئلہ تھا تو یہ سفر بجائے خود غلط تھا جس سے انہوں نے نہ صرف اپنی بلکہ سڑک پر چلنے والے دیگر افراد کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالا۔ ان سب اعتراضات کے باوجود ابھی تک ایسا نظر آرہا ہے کہ چونکہ ڈومینک کمنگ وزیراعظم کی مکمل حمایت حاصل ہے، چنانچہ ان کے خلاف شاید کوئی کارروائی نہ کی جائے، لوگوں کا خیال ہے کہ ڈومینک کمنگ کے لیے بھی سب سے بہتر یہی تھا کہ اتنی زیادہ تنقید کے بعد وہ اپنے عہدے سے چمٹے رہنے کے بجائے استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے، اس موقع پر میں کنزرویٹو پارٹی کے ان ممبران پارلیمنٹ کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اصولوں کی خاطر پارٹی لیڈر شپ پر تنقید کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا کوئی خوف محسوس نہیں کیا اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہی، میری خواہش ہے کہ کاش پاکستان میں بھی ممبران پارلیمنٹ اور پارٹی ورکرز اسی جرات کا مظاہرہ کیا کریں اور اپنی پارٹی کے کرپٹ لیڈروں پر اسی جذبے کے ساتھ تنقید کریں، بیس بھی افراد نہیں اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں ہم وزیراعظم عمران خان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ پاکستان میں اسی طرح کی تبدیلیوں کا آغاز کریں گے جس کی لوگوں نے ان سے امیدیں باندھ رکھی ہیں۔
تازہ ترین