فرحان رضا
اردو زبان و ادب میں سیکڑوں ایسے مصرعے یا اشعار موجود ہیں، جنہیں قبولِ عام سند کا درجہ حاصل ہے اور وہ باقاعدہ ضرب المثل بن گئے۔ عام فہم الفاظ میں اسے ضرب المثل کہتے ہیں، جب کوئی بات ، جملہ،شعریا مصرع کہاوت کی طرح مشہور ہوجائے، مثلاًبقول غالب ؎تم سلامت رہو ہزار برس .....ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار۔ یا؎ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن..... بڑے بے آبروہو کرترے کوچے سے ہم نکلے ۔
اسی طرح بقول علامہ اقبال؎ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں یا؎ محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ جوش صاحب کہہ گئے ہیں ؎لب ہلے تو کشتیاں چلنے لگیں اعجاز کی..... فکرِ انساں کو سواری مل گئی آوازکی۔ درحقیقت الفاظ فکر کی سواریاں ہیں اور یہ فکر سادگی کے پیرہن میں عام فہم الفاظ اور دل نشیں اندازِبیاں میں ڈھل کر انسانوں کی روزمرّہ بول چال کا حصّہ بن جائے، تو اسے ’’ضرب المثل‘‘ کہتے ہیں۔
آپ نے اکثر مواقع پر لوگوں کو مختلف مصرعے استعمال کرتے ہوئے سنا ہوگا، اگر کوئی خاص بات محسوس ہوجائے، تو نشست میں کہتے ہیں ’’تاڑنے والے قیامت کی نظررکھتے ہیں‘‘ جب کوئی بزرگ اپنی جوانی کا واقعہ سناتے ہیں، تو کہتے ہیں ’’یہ اُس وقت کا قصّہ ہے، جب آتش جوان تھا۔‘‘ اگرچہ یہ تمام مصرعے شعرا کی غزلوں کے ہیں، مگر کچھ مصرعے رثائی ادب کا بھی حصّہ ہیں۔ مثلاً جب کسی کے انتقال کی خبرآتی ہے، توکہا جاتا ہے؎ جب احمدِ مرسل ؐ نہ رہے، کون رہے گا ۔اسی طرح جب کسی مشہورآدمی کے مسائل کا ذکر سنتے ہیں، تو فوراً یہ مصرع زبان پر آتا ہے ؎جن کا رتبہ ہے سوا ان کو سوا مشکل ہے ۔ غرض یہ کہ اس طرح کے اور بہت سے مصرعے ہیں ،جو ضرب المثل کی شکل اختیار کرگئے۔
ضرب المثل بن جانے والے مصرعوں، اشعار پر ترتیب دی گئی کتاب ’’اردو کے ضرب المثل اشعار، تحقیق کی روشنی میں‘‘ میں یوں تو سیکڑوں مصرعے موجود ہیں، مگر رثائی ادب کے مشہور مصرعوں پر تفصیل سے بات نہیں کی گئی۔ محض گنتی کے چند اشعار ہی شامل کیے گئے ہیں، جب کہ مشہورِ عام اور عام بول چال میں استعمال کیے جانے والے ایسے مصرعوں کا ایک کثیرذخیرہ موجود ہے۔ مرثیے کے موضوعات میں اعلیٰ اخلاق، پندو نصیحت، رشتوں کی پاس داری اور خاص طور پر رنج و آلام میں ثابت قدم رہنے کے حوالے سے متعدد اشعارملتے ہیں۔
جن میں سے بعض پورے اشعار تو کچھ مصرعے مقبولِ عام ہوئے ۔ سب سے پہلے انیس ؔکے مصرعے کی بات کرتے ہیں ؎جب احمد مرسل ؐ نہ رہے، کون رہے گا ..... عالم میں جو تھے فیض کے دریا، وہ کہاں ہیں.....ہم سب جو تھے افضل و اعلیٰ، وہ کہاں ہیں ..... جو نورِخدا سے ہوئے پیدا، وہ کہاں ہیں.....پیدا ہوئی جن کے لیے دنیا، وہ کہاں ہیں.....جو زندہ ہے، وہ موت کی تکلیف سہے گا .....جب احمدِ مرسل ؐ نہ رہے، کون رہے گا۔ اسی طرح کا ایک اور مصرع انیس ؔ کے سلام میں مشہور ہے؎ ہم کیا رہیں گے، جب نہ رسولِ ؐ خدا رہے ۔میر انیس لکھتے ہیں؎انساں کو چاہیے کہ خیالِ قضا رہے.....ہم کیا رہیں گے، جب نہ رسولِ ؐ خدا رہے۔
کچھ مشہورضرب الامثال سلام، رباعیوں سے بھی ہیں مثلاً ؎ گلشن میں پِھروں یا سیروصحرا دیکھوں.....یا معدن و کوہ ودشت و دریا دیکھوں .....ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے .....حیراں ہوں کہ دوآنکھوں سے کیاکیا دیکھوں ۔بعض اوقات کوئی مصرع اتنا مشہور ہو جاتا ہے کہ دھیان ہی نہیں رہتا کہ یہ کب لکھا گیا اور کس نے لکھا ۔ مثلاً ؎جن کا رتبہ ہے سوا، ان کی سوا مشکل ہے۔یہ مصرع انتہائی معروف نوحے؎’’گھبرائے گی زینب‘‘ کے خالق، چھنولال دل گیر کا ہے۔ پورا بنداس طرح ہے؎گزر ِ منزل ِتسلیم ورضا مشکل ہے .....سہل ہے عشق ِبشر، عشقِ خدا مشکل ہے ..... وعدہ آسان ہے، وعدے کی وفا مشکل ہے.....جن کا رتبہ ہے سوا، ان کو سوا مشکل ہے.....یہ فقط امرہوا فاطمہ کے جانی سے..... مشکلیں جتنی ہوئیں، کاٹیں وہ آسانی سے۔
میر انیس ؔو مرزا دبیرؔکے ایک مضمون میں دونوں مصرعے ضرب المثل بنے ۔میر انیسؔ نے کہا ؎انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے.....دنیا میں ہے سب کچھ، مگر انصاف نہیں ہے۔دوسرے مصرعے میں کہتے ہیں؎ رتبہ جسے دیتا ہے، خدا دیتا ہے.....وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے ..... کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی..... جو ظرف کہ خالی ہے، صدا دیتاہے۔مرزا دبیرؔکے ایک مضمون میں کہے گئے دو مصرعے دیکھیے ؎انصاف ہو کس طرح کہ دل صاف نہیں ہے .....دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے۔جب کہ دوسرے دو اشعار میں وہ کہتے ہیں؎نہ پھول تھے ،نہ چمن تھا، نہ آشیانہ تھا.....چھٹے اسیر توبدلا ہوا زمانہ تھا۔ اور؎کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے .....رستم کا بدن زیرِ کفن کانپ رہا ہے۔
مرزادبیرؔکے کئی اور بھی مصرعے ہیں، جو زبان زدِعام ہوئے ،لیکن کم لوگوں کو علم ہے وہ مرزا دبیر کے مصرعے ہیں مثلاً ؎جھکتا ہے وہ پلّہ جو گراں ہوتا۔ اور؎احساں کیا جو کہ ہم پر احساں نہ کیا۔ علاوہ ازیں، میرانیس ؔ کے متعدد مصرعے ضرب المثل بنے، جو کہ ان کے مختلف مرثیوں، سلام اور رباعیوں کے حصّے ہیںاور اکثر ادیب، خطیب اپنے تعلی میں پڑھتے ہیں؎گل دستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں.....اِک رنگِ مضمون ہو، تو سو رنگ سے باندھوں۔اسی طرح اکثر کسی دوست یا قرابت دار کی خاطر داری کرتے ہوئے پڑھا جاتا ہے؎خیال ِ خاطرِاحباب چاہیےہر دَم .....انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ۔ اور؎انیسؔ دَم کا بھروسا نہیں، ٹھہر جاؤ.....چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے۔ اور؎..... عمر گزر گئی ہے، اسی دشت کی سیاحی میں.....پانچویں پشت ہے شبیرؑ کی مداحی میں۔