• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ’’آئینِ نو‘‘ میں میری پیشہ ورانہ اور نجی زندگی کے اُن واقعات کا مختصر ذکر شروع ہوا جو بطور صحافی اور طالبعلم پاکستان اور بلوچستان میں میری دلچسپی مسلسل بڑھنے کا سبب بنے۔

اسی پس منظر سے بنے بلوچستان بارے میں نے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی توجہ اس کھوتی ہوئی میڈیا کوریج کی طرف دلائی جس پر جنگ گروپ کی شیئرڈ پالیسی تشکیل دینے کی غیرمعمولی پیشہ ورانہ سرگرمی کراچی میں ہوئی۔

میری مشاورت کے پسِ منظر میں واقعات کے سلسلے کا حسن اتفاق ہے جس نے مجھے تادم ذہناً اور کسی حد تک عملاً امورِ بلوچستان سے جوڑ ہوا ہے۔ 1986یا 87کے ایک مطالعاتی اور تفریحی دورے پر ڈاکٹر اے آر خالد اور میں طلبہ کو لے کر کراچی سے کوئٹہ پہنچے تو یہ دورہ بہت نتیجہ خیز ثابت ہوا۔

یونیورسٹی آف بلوچستان کا شعبہ ابلاغیات ہمارا میزبان تھا، جہاں لیکچرر مظفر پنجاب یونیورسٹی میں خالد صاحب اور میرے شاگرد رہ چکے تھے۔ انہوں نے مہمان اور میزبان کے درمیان فوکل پرسن کی ذمہ داری بخوبی انجام دی۔ گورنر موسیٰ نے ہمیں ایک گھنٹے کا وقت دیا۔

پاکستان کی عسکری تاریخ کے اہم مراحل اور بلوچستان کی اہمیت پر بہت مفید گفتگو ہوئی اور گورنر صاحب جو جنگ ستمبر میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف کے حوالے سے بڑے قومی ہیرو بن چکے تھے، نے فراخدلی سے طلبہ کو سوالات کا موقع دیا۔

وزیر تعلیم آغا پری گل، اسپیکر صوبائی اسمبلی کاکڑ صاحب اور سیکرٹری اطلاعات عطا شاد نے پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے اعزاز میں ظہرانے اور ڈنر کا اہتمام کیا۔ زیارت میں صنوبر کے پہاڑی جنگل میں حضرت قائداعظمؒ کی آخری آرام گاہ، ریزیڈنسی کا وزٹ، طلبہ کے لئے بہت جذباتی تھا۔ وہ واپسی کو ایک ڈیڑھ گھنٹے تک ٹالتے رہے، سب تاریخ میں گم ہو گئے۔

ہمارے کراچی کے دورے میں ہماری دعوت پر جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغیات کے طلبہ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ایسے ہی دوروں کا سلسلہ تو پہلے ہی شروع کردیا تھا، وہ پہلے لاہور پہنچ کر تین چار روز نیوکیمپس میں قیام کرتے پھر اسلام آباد، گلیات اور ناردرن ایریا چترال، سوات کی طرف نکل پڑتے۔

یہی ماڈل بلوچستان یونیورسٹی کے صحافی طلبہ نے اختیار کر لیا، وہ اتنے ریگولر تو نہ ہوئے لیکن ہر دوسرے سال آتے رہے۔ حکومت بلوچستان یا یونیورسٹی انتظامیہ ان کی مکمل مالی معاونت کرتی جبکہ کراچی اور پنجاب یونیورسٹیوں کے طلبہ ایسے دوروں کا جزوی بجٹ خود کنٹری بیوٹ کرتے تھے۔ بغیر کسی سیاسی ایجنڈے یا منصوبہ بندی کے یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتی قومی یکجہتی کے یہ کتنے حسین دن تھے، جب کراچی اور کوئٹہ بری طرح ڈسٹرب ہو کر دہشت زدہ ہو گئے، میں ان دنوں کو یاد کرکے آہیں بھرتا۔

برا ہو اسٹیٹس کو کی رسوا سیاست کا جس نے قومی یکجہتی کے اس بنتے اور بڑھتے دھارے کو برباد کردیا۔ مئی 1998میں جب پاکستان دوسرے بھارتی ایٹمی دھماکو ں کے جواب میں دنیائے اسلام کی پہلی اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت بنا تو سی پی این ای کے جنرل سیکرٹری جناب مجیب الرحمٰن شامی کی معیت میں صحافیوں کا ایک وفد کوئٹہ گیا، جہاں پریس کلب، روزنامہ زمانہ اور خیبر ٹائمز کے مالک ایڈیٹر جناب فصیح اقبال جو ٹیکنوکریٹ کی نشست پر سینیٹر بھی بنے، نے ہماری میزبانی کی۔

پی ٹی وی کوئٹہ نے ہمارا اور مقامی صحافیوں کا ایک مشترکہ پروگرام، بلوچستان کے نئے قومی اعزاز اور نئی عالمی شناخت کے حوالے سے کیا، یکساں رائے اور قومی موقف کا یہ پروگرام منفرد تھا اور قومی جذبات و احساسات کا مکمل عکاس۔

1997میں شعبے میں جب ڈاکٹر مسکین حجازی نے اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی اداروں کے بین الاقوامی شہرت یافتہ مشیر ابلاغیات افریقی نژاد پروفیسر جوزف آسکرافٹ کی شعبے کے اساتذہ کو تربیت کے نتیجے میں ڈی ایس سی (ڈویلپمنٹ سپورٹ کمیونیکیشن) کا پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ پروگرام متعارف کرایا تو بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے ماس کمیونیکیشن کرنے والے دو طلبہ محمد عاطف اور سید شاہین حسن نے کوئٹہ سے آکر اس میں داخلہ لیا۔

فراغت کے بعد انہوں نے میرا پیچھا باندھ لیا کہ آپ نے جو پڑھایا، عملاً وہ کرانے میں ہماری مدد کریں کوئی پروجیکٹ کہیں بھی بنا کر ہمیں اس میں انگیج کر دیں، ہم مین اسٹریم میڈیا میں جانے کے بجائے ’’ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن‘‘ کی اسپیشلائزیشن کو اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔

پروجیکٹ بنانا، اس کی فنڈنگ اور اس کا نتیجہ خیز آغاز تو میرے لئے غمِ روزگاراں کی پہلے سے موجود سرگرمیوں میں آسان نہ تھا اور عاطف اور شاہین کے ڈویلپمنٹ کمیونیکیشن کے حوالے سے کچھ کرنے کرانے کے مطالبے نے مجھے گھیر لیا، سو میں نے روزنامہ جنگ میں جہاں میں کالم نویسی اور جز وقتی مشاورتی خدمات پہلے ہی دے رہا تھا، میں ڈویلپمنٹ رپورٹنگ متعارف کرانے کی دستاویزی منصوبہ بندی کی اور میر شکیل صاحب کو تجویز پیش کی۔

ان کے پاس وقت کی کمی اور Presentationلینے میں کچھ ماہ لگ گئے، بالآخر وہ جب سارے نئے آئیڈیا کو سمجھ گئے تو پھر ان کا زبردست رسپانس آیا۔ انہوں نے کہا یہ مین رپورٹنگ سیل سے ہٹ کر ہمارا اسپیشل سیل ہوگا، اس کی ساری تیار رپورٹس کراچی آئیں گی اور وہاں سے جنگ کے پانچوں اشاعتی مقامات کو بھیجی جائیں گی۔

یہ سب تمام ایڈیشن میں تین کالمی چھپیں گی، اس کے ساتھ سیل کا ایک لوگو بھی ہوگا، جو جنگ کے ہی آرٹسٹ سے تیار کرایا گیا۔ یوں 1999میں میری زیر ادارت ڈی آر سی نے جنگ لاہور میں آغاز کر دیا۔ عاطف، شاہین، کاظم شاہ اور نوید رندھاوا اس کے پہلے ڈویلپمنٹ رپورٹر مقرر ہوئے، یوں جنگ لاہور، پاکستان میں ڈویلپمنٹ رپورٹنگ کا پائنیر بنا۔

یہی چراغ محمد عاطف نے کوئٹہ کے میڈیا میں کیسے جلایا؟ آئین نو کی اگلی اشاعت میں ملاحظہ کریں۔

تازہ ترین