• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:محمد صادق کھوکھر۔۔ لیسٹر
دوسرے ممالک کا توعلم نہیں لیکن پاکستانی سیاستدانوں میں خود کریڈٹ لینے اور دوسروں کو اس سے محروم کرنے کی زبردست خواہش پائی جاتی ہے۔ اس دوڑ میں صرف سیاستدان ہی ملوث نہیں ہیں بلکہ دوسرے طبقات بھی شامل ہیں۔ اس کی ایک جھلک ہم نے مختلف دھرنوں کے دوران دیکھی تھی۔ جب کریڈٹ کے حصول کی خاطر دھرنوں کا مقابلہ برپا ہوا تھا۔ آج کل سندھ حکومت اور مرکز کے درمیان کرونا وائرس سے نمٹنے کا معرکہ ہو رہا ہے۔ اس دوران مریضوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچنے والی ہے۔ کسے معلوم اس کا کریڈٹ کون حاصل کرے گا؟۔۔اس میں شک نہیں کہ کریڈٹ حاصل کرنا ہر رہنما کا حق ہے لیکن جائز اور باوقار طریقے سے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ خواہش اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ سابقہ ادوار کی تختیاں اتار کر اپنے ناموں سے منسوب کر لی جاتی ہیں۔ آج کل شیخ رشید ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ اپنے نام کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ اس کا کریڈٹ نواز شریف کو دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے حامی کہتے ہیں کہ اصل کریڈٹ تو بھٹو کو جاتا ہے۔ جس نے یہ پروگرام شروع کیا تھا اور اس کے بدلے پھانسی کی سزا قبول کرلی۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ انہیں ہنری کیسنجر نے دھمکی دی تھی۔ کہ اگر باز نہ آئے تو انہیں عبرت بنا دیا جائے گا۔ اسی طرح کئی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں۔ سچ صرف یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ بھٹو کو بھی جاتا ہے جنہوں نے یہ پروجیکٹ شروع کیا۔ لیکن جنرل ضیاالحق بھی تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے بے پناہ دباؤ کے باوجود نہ صرف اسے جاری و ساری رکھا بلکہ اسے پایہء تکمیل تک پہنچایا۔ اگر بھٹو کو پھانسی ہنری کیسنجر کی وجہ سے ہوئی ہوتی۔ تو ضیاء دور میں یہ منصوبہ ختم ہو چکا ہوتا حقیقت اس کے برعکس ہے۔ بھٹو اور ضیاءالحق کے علاوہ اس منصوبے کے ہیرو سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق وزیرِ خارجہ آغا شاہی بھی ہیں جو آغاز سے اختتام تک اس پروجیکٹ کے نگہبان تھے۔ نواز شریف کو بھی اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے جن کے دورِ اقتدار میں دھماکے کیے گئے۔ لیکن یہ بات سب بھول جاتے ہیں کہ اگر بھارت پہلے دھماکے نہ کرتا تو نواز شریف کے لیے ممکن نہیں تھا۔ بھارتی دھماکوں کے بعد ہماری ساری قوم اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ فورا" دھماکے کیے جائیں۔ اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی دوسرا متبادل راستہ نہیں تھا۔ نواز شریف کو قوم کا مطالبہ ماننا پڑا اور سب سے بڑا کردار تو ہمارے سائنس دانوں کا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک اور دیگر سیکڑوں سائنسدانوں کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔ یہی تو ہمارے اصل ہیرو ہیںجنہوں نے دن رات ایک کر کے اس عظیم منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اختلافات اپنی جگہ لیکن حقائق کو مسخ نہ کریں۔ عمران خان صاحب کو بھی بڑا دل کرنا چاہیے تھا۔ موجودہ حالات میں یومِ تکبیر دھوم دھام سے منانے کی ضرورت تھی۔ کیونکہ یہ دن ہمارے افتخار کی علامت ہے اور یومِ تشکر بھی ہے۔ہمارا مسئلہ درحقیقت تنگ نظری ہے۔ ہمارے ہاں اختلاف رائے کا سلیقہ نہیں۔ عموما" اختلاف رائے کو دشمنی کے مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔جس طرح بھٹو کے حامی ضیاءالحق کے کسی کام کی تعریف نہیں کر سکتے تھے اور ردِ عمل میں ضیاء کے حامیوں کا بھی یہی رویہ ہوتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح اب مشکل ترین دور میں بھی شہباز شریف اور عمران خان ایک دوسرے کو منہ نہیں لگاتے حالانکہ دونوں عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ پارلیمانی نظام میں بالادستی پارلیمنٹ کی ہوتی ہے۔ تمام منتخب ممبران کو فیصلوں میں شامل کرنا چاہیے۔ فیصلوں میں اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن فیصلے منتخب اراکین مل کر ہی کرتے ہیں۔ لیکن وزیرِاعظم صاحب عملا" اس حقیقت سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ کرپشن کے کیسوں کا فیصلہ بھی عدالتوں نے کرنا ہے۔ لیکن عمران خان اپنےعمل سے یہ ثابت کر رہے ہیںکہ فیصلے عدالتیں نہیں حکومت کرتی ہے۔ ان رویوں سے عدلیہ کا وقار مجروع ہوتا ہے۔ گزشتہ ادوار میں بھی احتساب کا عمل متنازع بنا رہا بدقسمتی سے اب بھی صورتِ حال افسوس ناک ہے۔ احتساب کا کریڈٹ بھی حکومت کو اسی صورت ملے گا اگر یہ متنازع نہ بنے۔ ورنہ احتساب مذاق بن کر رہ جائے گا۔موجودہ حکومت سے قوم کو بڑی توقعات تھیں جو آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ ایک رویہ ہماری بےجا توقعات کا بھی ہے ہم بحیثیت فرد کچھ نہیں کرتے اور ساری امیدیں حکومت سے باندھ لیتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں سے وابستگی کھیلوں کی ٹیموں جیسی ہوتی ہے۔ جس طرح ہم کسی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح ہم اپنی پسند کی پارٹی کے خلاف اور مخالف پارٹی کے حق میں کچھ بھی نہیں سن سکتے۔ ہر وقت اپنے لیڈر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں لیکن جب ہمارے ارمانوں کو ٹھیس پہنچتی ہے تو ہم دل شکستہ ہو جاتے ہے۔ ہمارا رویہ اگر مثبت ہو اور کھلے دل سے غلطیوں سے سبق سیکھیںاور ان کی نشان دہی کریں تو کبھی بھی ہم شکستہ دل نہیں ہونگے۔ الیکشن کے وقت بے شک اپنی پارٹی کا ساتھ دیں لیکن ہر وقت لیڈروں کو اپنے اعصاب پر سوار کرنا عقل مندی نہیں۔ سچائی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں ہیرو کو فرشتہ اور مخالف کوشیطان مت بنائیں۔ سب انسان ہیں انسان سمجھیں کوئی بھی خطا سے مبرا نہیں صرف مقدار کا فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح آراء میں بھی اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ اپنی رائے مسلط نہ کریںدوسروں کی بھی سنیں۔ اگر دوسروں کی بات سننے کا حوصلہ پیدا ہو جائے تو معاشرے میں اعتدال پیدا ہو سکتا ہے۔ اعتدال ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ہماری سیاست میں بڑی خرابی مزاج کی بے اعتدالی ہے۔ جس کی وجہ سے سارا معاشرہ بے اعتدالی کا شکار ہو گیا ہے۔ اسے اعتدال پر لانے کی شدید ضرورت ہے یہی وقت کا تقاضا ہے۔ 
تازہ ترین