• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذریعے کی رپورٹ کو کسی افسر کیخلاف بطور شواہد پیش کیا جاسکتا ہے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) شوگر کمیشن کی جانب سے کارٹیل کیلئے کام کرنے کے شبہ میں تحقیقات کے کام سے ہٹائے جانے والے مبینہ مخبر کیخلاف سرکاری تحقیقات بنیادی طور پر انٹیلی جنس بیورو کے ’’ذریعے کی رپورٹ‘‘ کے تحت ہو رہی ہے۔

 اس سے یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے ذریعے کی رپورٹ کو کسی کیخلاف عدالت میں یا سرکاری انکوائری میں شواہد کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سجاد باجوہ کو جاری کردہ چارج شیٹ میں لکھا ہے کہ ’’آئی بی کے ذریعے کی رپورٹ کے مطابق‘‘ افسر اُس شوگر مل کی انتظامیہ کے ساتھ رابطے میں تھا جس کیخلاف ان کی سربراہی میں ٹیم تحقیقات کر رہی تھی۔ 

چارج شیٹ میں لکھا تھا کہ ’’آپ مستقل مل انتظامیہ کے ساتھ رابےط میں تھے اور ساز باز کرکے تحقیقات میں تاخیر پیدا کی۔ آئی بی کی رپورٹ کے مطابق آپ نہ صرف اپنی رپورٹ کا تبادلہ کرتے رہے بلکہ دیگر محکموں کی جانب سے معلوم کی جانے والی تحقیقات بھی بتاتے رہے۔‘‘ 

افسر پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ رپورٹ مکمل ہونے سے قبل وہ رازداری کے ساتھ مل انتظامیہ کو کمیشن کے فارنسک جائزے سے آگاہ کر رہے ہیں، جس سے مل انتظامیہ کو یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ اپنا ریکارڈ درست کرلیں اور اپنی مبینہ غلط کاریوں کو ٹھیک کر لیں تاکہ حتمی رپورٹ میں معاملات درست نظر آئیں۔ 

افسر پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے مل انتظامیہ سے جڑے ایک نجی شخص کو اپنے ساتھ شامل کر کے اپنی طرف سے رپورٹ مرتب کروا رہے ہیں۔ چارج شیٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ افسر کی کارکردگی خراب اور غیر اطمینان بخش ہے۔ ان پر یہ بھی الزام تھا کہ ان کے میڈیا کے ساتھ تعلقات ہیں۔

اپنے جواب میں افسر نے الزامات مسترد کیے اور کہا کہ چارج شیٹ ایسے افراد نے تیار کی ہی جو ان کے ساتھ متعصب ہیں اور ذاتی عناد رکھتے ہیں۔ انہوں نے کاہ کہ الائنس شوگر مل کے ہیڈ آفس اور فیکٹری کی حدود میں جانا اور اسٹاف اور انتظامیہ سے ملاقات تحقیقات کے معمول کے مطابق ہوئی اور اس کیلئے خصوصی اجازت / احکامات ڈی جی ایف آئی اے نے دیے تھے۔ 

ایسا کرکے میں نے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی جیسا کہ چارج شیٹ میں کہا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میں کچھ سینئر عہدیداروں ، بشمول اس افسر کے جو میرے خلاف تحقیقات کر رہا ہے، تحقیقات کے دوران مجھ سے ناراض ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ اسے بھی انکوائری کے دوران شوگر کمیشن کے ایک رکن نے دھمکی دی تھی۔ مل انتظامیہ کے ساتھ رابطے کے حوالے سے انہوں نے کاہ کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ارکان کے ہمراہ مل انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کیا تھا۔

 اس میں کچھ غلط نہیں اور یہ رابطے تحقیقات کا حصہ تھے۔ انہوں نے اس بات سے بھی انکار کیا کہ انہوں نے مل انتظامیہ کو کمیشن کے فارنسک جائزے تک رسائی دی۔ افسر کے مطابق، یہ جائزہ کمیشن کے پاس ہی تھا اور کبھی مجھے نہیں دیا گیا۔ 

افسر نے درخواست کی ہے کہ ان کیخلاف جاری انکوائری میں انکوائری افسر کو تبدیل کیا جائے اور ساتھ ہی چارج شیٹ سے وابستہ متعلقہ دستاویزات تک بھی رسائی دی جائے۔ انہوں نے انکوائری افسر سے رابطہ کرکے اس وقت تک انکوائری روکنے کی درخواست کی ہے جب تک مجاز افسر اس ضمن میں فیصلہ نہ کر لے۔ 

انہوں نے کہا کہ مجاز افسر کی جانب سے فیصلے کا انتظار ہے لیکن آپ کی جانب سے آپ کے روبرو پیش ہونے پر اصرار سے میرے الزامات درست ثابت ہوتے ہیں کہ آپ کا مجھ سے ذاتی جھگڑا ہے جس کی وجہ سے آپ مجاز افسر کے فیصلے کا انتظار کرنا نہیں چاہتے۔ افسر کی جانب سے لکھے گئے اس خط کی نقل دی نیوز کے پاس دستیاب ہے۔

تازہ ترین