• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا اندازہ اب ٹینکوں۔ لڑاکا طیاروں۔ میزائلوں کی تعداد سے نہیں۔ اس کے اسپتالوں۔ وینٹی لیٹرز اور حفاظتی لباسوں کی گنتی سے اور دوسری طرف۔ وڈیو کانفرنسنگ۔ آن لائن کاروبار۔ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے آشنائی سے لگایا جا سکے گا۔

وزیراعظم بجا طور پر کہتے ہیں کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ رہنا ہوگا، یہ بھی تو بتائیں کہ کیسے۔ ہمارے جفاکش عوام کو تو 72سال سے بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی وبائوں کے ساتھ رہنے کی عادت ہے مگر کورونا تو جینے کے انداز تبدیل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔

چاہیں یا نہ چاہیں، ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ ماضی میں بہت سی ایجادات کا بھی پہلے ہم نے بہت انکار کیا۔ بعد میں عادی ہو گئے۔ انسان دوست حکومتیں صحت۔ معیشت اور تعلیم کے ماہرین سے آن لائن مشورے کرکے لوگوں کو زندگی کے نئے طریقے بتا رہی ہیں۔

ہر قوم اپنے محل و قوع۔ آبادی۔ لوگوں کی عادات۔ ثقافت کے تناظر میں کورونا کی موجودگی میں ممکنہ کامیاب زندگی کے ہدایت نامے تیار کر رہی ہے۔ یہ طے ہے کہ کورونا اب ایک طویل عرصے کے لیے رفیق حیات ہے۔

میری بار بار وائس چانسلروں۔ اکنامسٹوں۔ علماء۔ زرعی اسکالرز اور صنعت کاروں سے گزارش رہی ہے کہ وہ بعد از کورونا عالمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کی سماجی۔ سیاسی۔ اقتصادی۔

تدریسی عادتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ کم از کم 5سال کی طرزِ زندگی کے لیے رہنما خطوط مرتب کریں۔ ہم نے فروری سے تاحال دیکھ لیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس خطرناک وبا کے مقابلے میں کتنی لاپروا رہی ہے۔ اس کے بنیادی اسباب میں وفاقی حکومت کا تذبذب۔ نیم مذہبی گروپوں کی لایعنی ترغیبات۔ برسوں سے بے دریغ منافع کمانے والے کاروباریوں کے بھوکے مرنے کے دعوے۔ قومی سیاسی پارٹیوں کی لاتعلقی۔

منتخب ارکان اسمبلی کی اپنے ووٹرز سے دوری شامل ہیں۔ مگر سب سے بڑی وجہ ہمارے سیاسی۔ مذہبی اور قبائلی کلچر میں مجلسیت یعنی مجمع لگانے کا عنصر ہے۔ خوشی ہو یا غمی۔ مذہبی معاملہ ہو یا سیاسی۔ اکٹھا ہونا ہماری صدیوں پرانی عادت ہے اس کے ہوتے ہوئے وبا کے مقابلے میں سب سے ضروری احتیاط سماجی فاصلے کی پابندی مذہبی، سیاسی، سماجی اعتبار سے مشکل لگتی ہے۔ پرائیویٹ چینل اپنی برائیوں کے باوجود اس حوالے سے اہم ہیں کہ یہ لوگوں کو گھروں میں رکھتے ہیں۔ ماضی کی طرح تھڑوں پر نوجوان نظر نہیں آتے۔

آئیے! ہم اپنے طور پر کچھ غور کرتے ہیں۔ کورونا رفاقت میں اولیں ترجیح صحت کی ہوگی۔ عزم تو یہ ہونا چاہئے کہ ہم بیمار ہی کیوں ہوں۔ اس کے لیے احتیاطی تدابیر کو زندگی کا لازمی حصّہ بنائیں۔ پاکستان میں پہلے سے موجود بیماریاں کون کون سی ہیں اس کے لیے وٹس ایپ گروپ بنائے جائیں۔

فضول لطیفوں۔ وڈیوز کے تبادلوں کے بجائے صحت کے معاملات پر گفتگو کریں۔ بنیادی صحت مراکز۔ اسپتالوں کا دورہ کریں۔ وہاں جو بھی کمی یا بے قاعدگی ہے اسے وائرل کریں۔ صوبائی حکومتوں کے علم میں لائیں۔

صحت کے بعد معیشت۔ جسے کورونا نے 60فیصد سے زیادہ تباہ کر دیا ہے۔ ہمارے کاروباری رجحانات پہلے بھی ملک اور خطّے کی ضرورت کے مطابق نہیں تھے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی بھیڑ چال تھی۔ اپنے ملک کے قدرتی اور معدنی وسائل لوگوں کے مسائل ہمارے کاروباریوں کا محور نہیں رہے ہیں۔

کورونا نے عالمگیریت کو سخت دھچکا لگایا ہے۔ معیشت اور تجارت خطوں تک محدود ہو رہی ہے۔ اس لیے منصوبہ بندی اب اپنے ہمسایوں اور اپنے ملک کی ضروریات کے مطابق کرنا ہوگی۔ ایسے کاروبار سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جہاں مجمعے لگتے ہیں۔

سبزی منڈیاں۔ غلّہ مارکیٹیں۔ شاپنگ مال۔ شادی ہال۔ سیاسی جلسے جلوس۔ مذہبی اجتماعات۔ موسیقی گانے بجانے کے کنسرٹ۔ بڑے سیمینار۔ نمائشیں کورونا کی موجودگی میں نہیں چلیں گے۔ ساری محفلیں موبائل فون کی اسکرین پر لگانا ہوں گی۔ اس حوالے سے تربیت ہی اب مستقبل کی تعلیم ہوگی۔خلیج اور دوسرے ممالک سے لاکھوں پاکستانی بیروزگار ہوکر واپس آ چکے ہیں۔

ان کو بھی روزگار فراہم کرنا ہوگا۔ حکومت کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں۔ صرف انفارمیشن اور مواصلات ٹیکنالوجی کے محکموں میں گنجائش نکلے گی، اب ہوائی سفر۔ مقامی اور بین الاقوامی بہت کم ہو جائیں گے۔ کرائے مہنگے ہو جائیں گے۔

جہاں روایتی قبائلی سیاسی مذہبی معاشرت ہماری کمزوری ہے۔ وہاں پاکستان کی مثالی اقتصادی وحدت کو کئی طاقتیں بھی اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہوئی ہیں۔ اس کی جغرافیائی حیثیت پھر ارضی ہیئت کہ سمندر پہاڑ دریا۔ میدان۔ ریگستان سب کچھ ہے۔

تاریخی آثار ہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی چوٹی۔ یہ سب سیاحت کے مراکز اور زر مبادلہ کے وسائل بن سکتے ہیں۔ سب سے بڑا اثاثہ 60فیصد نوجوان آبادی۔ یہ اگر انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل کرے تو کورونا کے بعد کی صورتحال میں معیشت کا سب سے مضبوط پہیہ بن سکتی ہے۔

روایتی صنعتوں کے بجائے اب سروسز (خدمات) اندرونی طور پر بھی اور برآمد کے حوالے سے بڑی صنعت بن گئی ہیں۔ بصیرت اور تدبر ہو تو صوبائی حکومتیں۔ دالبندین۔ چیچہ وطنی۔ کندھ کوٹ۔ کالا ڈھاکا۔ نیلم وادی۔ چلاس جیسے دور دراز علاقوں میں بھی ٹیکنالوجی کی تربیت سے نوجوانوں کو گھر بیٹھے دنیا بھر سے کمپنیوں کی ملازمت دلا سکتی ہیں۔ ہماری انگریزی زبان جاننے کی صلاحیت بہت کام آ سکتی ہے۔

آن لائن شاپنگ کو ان دنوں بہت فروغ ملا ہے۔ کمپنیاں اگر صارفوں کو دھوکا نہ دینے کی عادت ڈال لیں تو یہ رجحان سارے شہروں میں بڑھ سکتا ہے۔ جاگیردار۔ شہری مافیا اب پہلے کی طرح قانون سے ماورا نہیں رہیں گے۔ میٹنگ کلچر کی جگہ ای میل سے کام چل سکتا ہے۔

عدالتوں میں بھی آن لائن سماعت کارگر ہوگی۔ صدیوں کے روایتی اسکول اور مدرسہ کلچر میں بھی تبدیلی ناگزیر ہوگی۔

مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ سب بچوں کے گھروں میں بجلی ہو۔ کمپیوٹر ہوں۔ مسجدوں کو سماجی مراکز کا درجہ دے کر محلوں میں انقلاب لانا ہوگا۔ دفاعی بجٹ سب ملکوں کے کم ہوں گے نیا اسلحہ نہ بنے گا اور نہ خریدا جائے گا۔

ایک طویل عرصے تک ملکوں کی سلامتی کی جنگ اسپتالوں میں لڑی جائے گی۔ بزرگ آن لائن کے لیے تیار رہیں۔ ہمارے بچے تو اس میں ایکسپرٹ ہو چکے ہیں۔

تازہ ترین