• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’میرے ابو‘ انہوں نے میرے ’’پر‘‘ نہیں کاٹے، اونچا اور اونچا اُڑنے کا موقع دیا

کہتےہیں،’’ بیٹیاں ماں کی سَکھی سہیلی، ہم جولی، پر چھائیں ہوتی ہیں‘‘، لیکن مَیں اپنے ابّو کی بیٹی ہوں۔بچپن سے لے کر آج تک سب سے یہی سُنا کہ ’’یہ توہو بہو اپنی ماں کی شکل ہے‘‘،مگر مجھے وہ دن نہیں بھولتا ،جب میری ایک وَین میٹ نےمیرے ابّو کو پہلی بار دیکھ کر کہا تھا ’’تم توبالکل اپنے ابّو جیسی ہو۔‘‘ مجھے اُس لڑکی کی شکل یاد ہے، نہ نام بس کچھ یاد ہے، تو وہ یہ بات کہ اُس نے مجھے میرے ابّو کی شبیہہ قرار دیاتھا۔اور اس کی بات یہ آج تک میرے دل پر نقش ہے۔ جب بھی آئینے میں خود کو دیکھتی ہوں، تو اپنے چہرے میں ابّو ہی کا عکس نظر آتا ہے اور پتا ہے کیا، میری مسکراہٹ بھی بالکل ابّو جیسی ہے۔مائیں تو سب کی اچھی ہوتی ہیں، ممتا سے بھرپور، پیار کی مورت، لیکن مَیں وہ خوش قسمت بیٹی ہوں، جس کے نصیب میں بہترین ماں کے ساتھ شفیق ترین باپ کا پیار بھی آیا ہے۔وہ باپ، جن سے کچھ کہنے سے پہلے مجھے سوچنا نہیں پڑتا، جن سے بات کرتے ہوئے مجھے ڈر نہیں لگتا، جن کی شخصیت میں رُعب و دبدبہ نہیں، بس نرمی، پیار اور اپنائیت ہی اپنائیت ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے گویاطاہر شہیر نے میرے ہی ابّو کے متعلق کہا ہے؎ عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگِ جاں سے …یہ بات سچ ہے مِرا باپ کم نہیں ماں سے … جُڑی ہےاس کی ہر اِک ہاں، فقط مِری ہاں سے …یہ بات سچ ہے ،مِرا باپ کم نہیں ماں سے …وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو دن بھر … وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا ہے …وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے ،جی بھر کے …نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مُسکراتا ہے … مِرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویراں سے …یہ بات سچ ہے ،مِرا باپ کم نہیں ماں سے۔

میری زندگی دوسروںسے کچھ مختلف اس لیے بھی ہے کہ مَیں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ مَیں نے اکثر لوگوں کو بیٹوں پر مان کرتے دیکھا ہے، لیکن اپنے ابّو کوکبھی بیٹا نہ ہونے پر کوئی افسوس یا شکوہ کرتے نہیں دیکھا۔ بولنا امّی نے سکھایا، مگر مَیں نےلہجہ ابّو کا پایا، سارا دن امّی کے ساتھ رہتی تھی، لیکن پہلا قدم ابّو کے سامنے اُٹھایا، سوتی امّی سے لپٹ کر تھی، لیکن کہانیاں ابّو سُناتے، پڑھاتی امّی تھیں، لیکن ’’دادا، دادی، نانا، نانی ‘‘ لکھ کے ابّو کو دِکھایا، میری زندگی کی پہلی ڈرائنگ’’ گلاب کا پھول‘‘ تھی اور وہ بھی ابّو ہی سے بنانا سیکھا۔ مَیں اکثر اپنے ہم عُمر بچّوں پروالد کا خُوب جاہ و جلال ،رعب و دبدبہ دیکھتی تھی، لیکن مجال ہے جو میرے ابّو نے کبھی مجھے اُف بھی کہا ہو۔ دھیما شفیق لہجہ، ٹھنڈا مزج، پُر اثر اندازِ گفتگومیرے ابّو کی تو ہر ادا ہی روایتی باپوں سے یک سَرمختلف ہے۔

اسکول میںداخلے کے بعد ابّو ہر سال میری سال گرہ کے موقعے پردو کیکس بنواتے، ایک اسکول کے لیے، دوسرا گھر کے لیے۔اور دونوں کا ڈیزائن مختلف اور منفرد ہوتا۔ مارکیٹ میں جیسے ہی کوئی نیا کھلونا آتا ، سب سے پہلے مجھےخرید کر دیتے۔ مجھے یاد ہی نہیںکہ مَیں نےابّو سےکبھی کسی کھلونے کی فرمایش کی ہو کہ ابّو توبنا مانگے ہی ہر کھلونا لے آتے تھے، جو آج بھی مَیں نے بہت سنبھال سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔مجھے یاد ہے پورے محلّے میں سب سے اچھی سائیکل میرے پاس تھی،کمپیوٹر ، موبائل فون ایسی کون سی شئے ہے، جس کے بارے میں، مَیں نے فقط سوچا ہو اور ابّو نے لا کر نہ دی ہو۔ البتہ، امّی نے چیک اینڈ بیلنس ضروررکھا کہ تربیت میں کہیں کمی نہ رہ جائے۔جو لوگ مجھے جانتے ہیں، انہیں پتا ہے کہ مجھ میں بلا کی خود اعتمادی ہے، اسٹیج پر بولتے ہوئے ڈرتی ہوں، نہ مائیک تھامتے ہاتھ کپکپاتےہیں، اس کی واحد وجہ صرف یہی ہے کہ میرے والدین نے مجھے اوائل عُمری ہی سے بھر پور اعتماد دیا۔ 

میرے ابّونے میرے پَر نہیں کاٹے، مجھے کُھلے آسمان میں اُڑنےدیا، میرے حوصلوں کو اُڑان بخشی۔ ہاتھ پکڑ کر چلنا نہیں سکھایا، ہاتھ چھوڑ کر خود قدم اُٹھانے کا حوصلہ دیا، فرسودہ روایات کی زنجیروں میں پیر نہیں جکڑے، اعتما د کے سائے میںپھلنے پُھولنے کا موقع دیا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا ملازمت کرنےکی اجازت دیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ ’’میری عزّت کا پاس رکھنا‘‘، بلکہ ہمیشہ ’’گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں، مَیں تمہارے پیچھے کھڑاہوں ‘‘جیسے الفاظ سے ہمّت بندھائی۔کبھی مجھ پر اپنی خواہشات، آرزوؤں کا بوجھ نہیں ڈالا، مَیں نے زندگی میں جو چاہا،وہ کیا، جو آرزو کی ، پوری ہوئی۔اسکول کے دَورہی سےمیری پہچان ایک آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ کی تھی ، نہ صرف نصابی بلکہ غیر نصابی سر گرمیوں میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھی۔ 

لیکن پھر زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا، جب پڑھائی میں کچھ کم زور ہوگئی۔ کلاس میں ٹاپ کرنے والی کے بمشکل پاسنگ مارکس آنے لگے۔ٹیچرز کیا، امّی کیا، سب ہی پریشان تھے۔ جیسے جیسےاگلی کلاسز میںجا رہی تھی، کار کردگی خراب سے خراب ترہو رہی تھی، تب بھی ابّو نے کبھی نہیں ڈانٹا، یہ تک نہیں کہا کہ ’’تمہارے مارکس کیوں کم ہیں۔ پڑھائی میں دل کیوں نہیں لگا رہیں…؟؟اب سے تمہارا کھیلنا کودنا بند، کوئی فرمایش پوری نہیں کروں گا۔‘‘ کہی تو بس ایک ہی بات، ’’پریشان نہیں ہونا، محنت جاری رکھو۔ دنیا میں ہر بچّہ فرسٹ نہیں آتا، تم کسی ریس میں نہیں بھاگ رہیں۔ ہر رات کے بعد اِک نیا دن ضرور آتا ہے۔ کوشش جاری رکھو، یہ ناکامی دائمی نہیں، وقتی ہے،بس ہمّت نہیں ہارنا۔‘‘ اور با لآخر اللہ نے میری امّی کی محنت اور میرے ابّو کے بھروسے کا ایسا مان رکھا کہ مَیں دوبارہ فار م میں آگئی۔خُوب اچھے مارکس آنے لگےاور پھر مَیں نے زندگی میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

ہمیشہ ہی سُنتے آئے ہیں کہ’’ مرد روتے نہیں کہ آنسو کم زوری کی علامت ہیں‘‘، لیکن بچپن میں جب مجھے ٹائیفائیڈ ہوا، تو مَیں نے اپنے ابّو کو بچّوں کی طرح روتے دیکھا ۔ اُن کے آنسو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ چٹان جیسا سخت مرد بھی اولاد کی تکلیف دیکھ کر کیسے موم کی طرح پگھل جاتا ہے۔ بلا شبہ ماں کے قدموں تلے جنّت ہے، لیکن کیا کبھی کوئی باپ کا دل دُکھا کر بھی جنّت میں داخل ہو سکے گا؟ہر گز نہیں۔یہ والدین ہی تو ہیں،جن کی آنکھوں میں جھانک کے دیکھیں، تو ہم دنیا میںسب سے بہترین، سب سے مکمل اور سب سے کام یاب نظر آتے ہیں ۔ جب بھی میری کوئی تحریر شایع ہوتی ہے، تو سب سے پہلے ابّو ہی پڑھتے ہیں، ہر کسی کو بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ’’میری بیٹی صحافی ہے۔ ‘‘مَیں اکثر انہیں کہتی بھی ہوں کہ ’’آپ کیوں سب کو بتا دیتے ہیں۔ کسی کو اس بات سے کیادل چسپی ہو گی کہ مَیں کیا کرتی ہوں۔‘‘ مگرمیری ہر کام یابی، ہر پذیرائی ، ہر تعریف کی خوشی ان کے چہرے سے صاف جھلکتی ہے۔ 

اکثر لوگ ایک ہی غلطی کرتے ہیں،وہ اپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم تو دلوادیتے ہیں، ملازمت کی اجازت بھی دے دیتے ہیں، لیکن اُن پر بھروسا نہیں کرتے۔زمانے کی سُنتے ہیں، اپنی اولاد کی نہیں،مگر میرے والد اور دیگروالدین میں فرق یہ ہے کہ میرے والدین، خصوصاً ابّو نے مجھےکبھی مشکوک نظروں سے نہیں دیکھا۔ انہیں اپنی تربیت پر پورا یقین ، بھروسا، اعتمادہے۔اور مَیں بھی اُن کی دی ہوئی آزادی کوآزادی نہیں، ذمّے داری سمجھتی ہوں۔مَیں زندگی میں کبھی کچھ ایسا کرنے کا تصوّر بھی نہیں سکتی کہ جس سے میرے باپ کا سر نیچا ہو۔اور یقین جانیے، صرف مَیں ہی نہیں، اگر ہر بچّے کواس کےوالدین کا بھر پور اعتماد ملے، تو وہ بھی اُن کا بھروسا قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے۔

تازہ ترین