• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور کیا خوبصورت شہر تھا۔ اس کی ہر گلی اور محلہ روایات کا امین تھا۔ شہر کی کچھ چیزیں کچھ لوگوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ لوگ اُن روایات کے پاسدار تھے پرانے لوگ چلے گئے۔ نئے لوگ آگئے جو شہر کی قدیم روایت، ریت، ثقافت سے آشنا نہیں تھے۔ لاہور کی زمین کو باہر سے آنے والے لوگوں نے بنجر کر دیا، اب یہ ہر روایت رواج سے عاری شہر ہے۔ جہاں ہر فرد پیسہ کمانے کی فکر میں ہے۔ ہمارے پچھلے کالم میں ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے چوہدری مجید یوسف کا نام اور چوہدری محمد یوسف پی ڈی ایس پی اورایس پی کا نام غلط شائع ہو گیا تھا۔ پی ڈی ایس پی اور پی آئی سرکاری وکیل ہوتے تھے۔ بڑے احسن انداز میں پولیس یونیفارم میں اپنے فرائض ادا کرتے تھے۔ اس پر پھر بات کریں گے۔

لاہور میں لکڑی کی ریڑھیوں پر آئس کریم ملا کرتی تھی۔ مے فیئر، وائٹ روز، سنو وائٹ اور سنو فلیک اب تو ان کو دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ ان آئس کریموں میں ایک عجیب خوشبو اور ذائقہ ہوتا تھا۔ جو آج بھی پرانے لاہوریوں کو یاد ہو گا۔ جنہوں نے شہر کی گلیوں اور محلوں میں یہ آئس کریم کبھی کھائی ہو گی۔ ہائے کیا زمانہ تھا اور کیا زمانہ آ گیا ہے۔ مال روڈ پر تانگے چلا کرتے تھے۔ ہم نے ان پر سواری کی ہے اور اپنے گھر ٹیپ روڈ (عرف عام میں گھوڑا اسپتال) سے لارنس گارڈن تک گئے ہیں۔ ہر اتوار پولیس کا براس بینڈ لارنس گارڈن کے سامنے فوارے کے گرد کھڑے ہو کر عوام کو اپنی دھنوں سے مسرور کرتا تھا۔ جہاں آج قائداعظمؒ لائبریری ہے، وہاں کبھی جم خانہ کلب تھا۔ اس کلب کے لکڑی کے فرش آج بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب تو یہ لائبریری ہے۔ لارنس گارڈن کے دروازے پر گول گپے اور پاپڑ ملا کرتے تھے۔ وقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ اپنے ساتھ کئی یادیں روایات اور خوبصورت طرز انداز کو بھی بہا کر لے جاتا ہے۔ مال روڈ پر اور ویسے بھی تانگے کے دونوں طرف مٹی کے تیل والے لیمپ کا ہونا بہت ضروری تھا۔ ورنہ چالان ہو جاتا تھا۔ ارے بھائی اگر سائیکل پر بتی (DAMNO)نہ ہوتی تو چالان ہو جاتا۔ مڈل کلاس کی سواری ہی سائیکل ہوتی تھی۔ تھری پیس سوٹ پہن کر لوگ سائیکل چلایا کرتے تھے۔ ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر جی این بٹ اور استاد خواجہ ضیاء الدین ہمیشہ تھری پیس سوٹ پہن کر سائیکل پر آیا کرتے تھے بلکہ گورنمنٹ کالج لاہور کے بیس گریڈ کے پروفیسر ایس اے خالد اور شیر محمد پرنسپل اشفاق علی اور ڈاکٹر نذیر احمد تک کو ہم نے سائیکل پر آتے جاتے دیکھا ہے۔ آج سائیکل غریب کی سواری بن چکی ہے۔ ڈنمارک، ناروے، سویڈن میں آج بھی ہزاروں لوگ سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں۔ سائیکل چلانا صحت کیلئے انتہائی مفید ہے۔ آج کل ڈیفنس میں رات کو ینگ لڑکے لڑکیاں اور کچھ بزرگ بھی سائیکل چلاتے نظر آتے ہیں۔ ان میں ہم بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس اور فوج کے سپاہی بلکہ ہم نے کچھ آفیسرز کو بھی سائیکلوں پر آتے جاتے دیکھا ہے۔ پولیس نے اپنے ملازمین اور سپاہیوں کیلئے مسٹرڈ کلر کی سائیکلیں رکھی ہوتی تھیں جن پر باقاعدہ نمبر لگے ہوتے تھے جس سے دور سے پتا چل جاتا تھا کہ یہ سائیکل پولیس کی ہے۔ فوج کے سپاہی ڈاک لے جانے کے لئے سائیکلیں استعمال کرتے تھے۔ جن پر کالے رنگ کا بڑا سا ڈبہ ہوتا تھا۔ ویسے تو آج بھی کینٹ کے علاقوں میں ایسے سائیکل سوار نظر آتے ہیں۔ ایجرٹن روڈ پر پیلی اور سفید، سفیدی والی بڑی بڑی کوٹھیاں ہوتی تھیں۔ جن میں انتہائی قدیم ماڈل کی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں۔ گھوڑوں کو پانی پلانے کیلئے ہر تانگے والے اڈے پر پانی کی ہودیاں ہوا کرتی تھیں۔

تانگے کے اڈوں پر دو طرح کے تانگے کھڑے ہوتے تھے۔ ایک وہ تانگے جن کا سب کا رنگ پیلا ہوتا تھا اور دوسرے رنگ برنگ کے تانگے جن کو پرائیویٹ تانگہ بھی کہا جاتا تھا، بعض تانگوں پر پردہ بھی لگا ہوتا تھا۔ ایک لاہوری تانگہ بھی ہوا کرتا تھا۔ شہر میں آمدورفت کیلئے تانگے ہی استعمال ہوتے تھے۔ لاہور میں تانگوں کے مشہور اڈے بھاٹی گیٹ، ہیرا منڈی، اسٹیشن اور نسبت روڈ پر وغیرہ تھے جہاں سے آپ کو رات دس گیارہ بجے کے بعد بھی تانگہ مل جاتا تھا۔ شہر دس بجے کے بعد خاموش اور سنسان ہو جاتا تھا۔ البتہ فلموں کا شو رات 9 تا 12 بجے ضرور چلا کرتا تھا۔ عید اور اتوار کو چار شوز اور باقی دنوں میں تین۔

شہر کی روایات میں ماشکی بھی بڑے اہم رہے ہیں۔ بازاروں، سڑکوں، اسکولوں اور کالجوں میں ماشکی ضرور ہوا کرتے تھے۔ جو صبح، شام لازمی پانی کا چھڑکائو کیا کرتے تھے۔ ہر ماشکی کے پاس چمڑے کی مشک ہوا کرتی تھی۔ شہر کے مکانوں میں اکثر پانی اوپر کی منزلوں پر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ ماشکی تقریباً ہر گھر میں جا کر صبح اور شام کو مختلف برتنوں اور حمام میں پانی ڈال کر آتا تھا۔ پانی گرم کرنے کیلئے کوئی گیزر وغیرہ نہیں تھے۔ سوئی گیس کے آنے سے قبل لوگ لکڑیاں، اُپلے (پاتھیاں)، بورے والی انگیٹھی، مٹی کے تیل کے چولہے، کچے کوئلے اور پتھر کے کوئلے سے کھانا چائے وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ (جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین