• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگہت شفیع، کراچی

بلا شبہ یہ صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ہے۔ ایک طرف انسان دوسرے سیاروں پر زندگی،پانی اور دوسری معدنیات کی تلاش میں سرگرداں ہے،تو دوسری جانب ہر گزرتے دن کے ساتھ نِت نئی ایجاد ات بھی کر رہا ہے۔اور یہ سلسلہ برسوں سے جا ری ہے، پھر اچانک یوںہوا کہ کرئہ ارض پر ’’وہ‘‘ آیا اور بس، جیسے پوری دنیا بدل ہی گئی ۔ کہنے کو تو وہ، کورونا ایک حقیر سا ذرّہ ہی ہے، لیکن اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچایا دیاہے۔ سائنس دان حیران، زندگی پریشان ہے،توکرئہ ارض پر ایک طرح سےصفِ ماتم بچھی ہے۔ دنیا کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے، موت سے زیادہ تنہائی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ مشرق سے مغرب ،شمال سے جنوب تک بس ایک ہی آواز، ایک ہی موضوع ہے ’’کورونا … کورونا…‘‘تقریباً پوری دنیا ایک قیدی کی سی زندگی بسر کر رہی ہے۔ نہ آزادی کے ساتھ کہیں آجا سکتے، نہ کسی سے مل جُل سکتے ہیں، ہر لحظہ ایک خوف سا طاری ہے۔

پورےماحول میں ایک وحشت سی ہے اور کیوں نہ ہو کہ اب تک لاکھوں افراد موت کی آغوش میں جوچلے گئے اورکئی آئسو لیشن سینٹرز میں زندگی وموت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ کاروبار ِزندگی منجمد ، تعلیمی ادارے، کارخانے، فیکٹریاں سب بند ہیں۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصورہو کے رہ گئے ہیں۔بار بار ہاتھ دھونے سے جراثیم مریں یا نہیں، لیکن نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں ضرور اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئی اسے عذابِ الٰہی کہہ رہا ہے، کوئی بیماری، تو کسی کی نظر میں یہ ترقّی پذیر ممالک کو مزید کم زور کرنے کی سازش ہے۔ لیکن یہ جو کچھی بھی ہے اس وقت حضرتِ انسان ،جو اشرف المخلوقات ہے،وہ اس کے زیرِ عتاب ،کرب بے بسی اور بے کسی کی تصویر ہی بنانظر آرہا ہے ۔بقول شاعر ؎ مصروفیات سے کبھی اتنے نہیں تھکے…بے کار بیٹھنے سے ہیں جتنے نڈھال ہم۔

ویسےجتنی صداقت اس بات میں ہےکہ اس صدی میں آج سے پہلے شاید ہی کبھی انسان اس قدر بے بس ہوا ہو کہ آزادہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں، اتنی ہی سچّی یہ بات بھی ہے کہ آج کے دَور کا انسان خود کو عقلِ کُل، طاقت وَر ترین ، دنیا جہاں کا بادشاہ سمجھنے لگا تھا۔ کسی کا احساس، لحاظ ،مروّت نہ تھی۔ طاقت کے نشے میں چُور،لالچ، حرص و ہوس اور بددیانتی کا پیکر بنا خود سے کم تر لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہا تھا۔ اور یہ حال صرف غیر مسلموں کا نہیں، مسلمانوں کا بھی تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک حقیر سے وائرس کے ذریعے سب پر عیاں کردیا کہ اس دنیا اور تمام جہانوں کا مالک و خالق صرف وہی ہےاوراس کی مرضی کے بنا ایک پتّا بھی نہیں ہِل سکتا۔ قر آن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں، منافقوں کی نشانیاں ، پچھلی قوموں پر عذاب کی وجوہ بیان کیں، تاکہ اُمتّ ِ محمّدی ﷺ عبرت حاصل کر ے، سبق سیکھے۔

لیکن بد قسمتی سے ہم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ کتاب، جو آج سےساڑھے 14سو سال قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، وہ رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کے لیے راہِ ہدایت ہے، جس میں ہر مصیبت ،ہرپریشانی کا علاج ہے، جو ڈرانے والی بھی ہے اور خوش خبری سُنانے والی بھی۔لیکن آج کے مسلمان کے اطوار اللہ کی مقرر کردہ حدود سے بالکل اُلٹ نظر آتے ہیں۔ ہر گھر میں قر آن تو ہے، مگر جزدان لپٹا طاق پر رکھاہوا ہے، جسے کھول کر پڑھنے، سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہم راہ سےبھٹک گئے ہیں، بے راہ روی، جہالت عام ہو گئی ہے۔اور اللہ کی نا فرمانی، حکم عدولی کے نتیجے میں عذاب نہیں آئے گا، تو کیا من و سلویٰ اُترے گا…ذرا سوچیے !آج ہر کوئی بار بار ہاتھ دھونے ،صاف ستھرا رہنے کی تلقین کر رہا ہے، جب کہ ہمارا دین 14سو سال پہلے صفائی کو نصف ایمان قرار دے چکا ہے۔ وضو اور غسل کے فرائض قرآن مجید میں واضح الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں ۔وضو کیا ہے، صفائی ہی کا تو حصّہ ہے۔

لہٰذا یاد رکھیں، اسلام کو دینِ فطرت یونہی نہیں کہا جاتا، اس میں زندگی گزارنے کا مکمل سلیقہ موجود ہے۔ اس میںمعاشی، معاشرتی ، اخلاقی ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے، اچھی زندگی گزارنے کے سب گُر سکھائے گئے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ کیسے اللہ کے احکامات کی پابندی کرکے اپنی دنیا و آخرت سنواریں یا دونوں ہی برباد کرلیں۔ اب بھی وقت ہےکہ توبہ کے دروازے بند نہیں ہوئے ، ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ استغفار کرنی چاہیے تاکہ اللہ پاک جلد از جلد ہم سے راضی ہو جائے اور کورونا نامی اس عذاب کا خاتمہ ہو۔

تازہ ترین