یکم جولائی سر پر آ گئی ہے ،مگر ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی کہ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وزیر اعلیٰ کے اعلان کے مطابق جنوبی پنجاب کا علیحدہ سیکرٹریٹ کام شروع کردے گا، اس بار اس علیحدہ سیکرٹریٹ کے لئے بجٹ میں ڈیڑھ ارب روپے رکھے گئے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے سال اس مقصد کے لئے 3 ارب روپے رکھے گئے تھے جو استعمال نہ ہونے کی وجہ سے واپس چلے گئے ، اس وقت جنوبی پنجاب میں چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ کہیں یکم جولائی کی یہ تاریخ بھی پہلے کی طرح علیحدہ سیکرٹریٹ کا انتظار کرتے ہی نہ گزر جائے، اگر ایسا ہوا تو یہ جنوبی پنجاب کی عوام سے سے تحریک انصاف اور پنجاب حکومت کا ایک بہت سنگین مذاق ہوگا ۔
ادھر اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی سکینڈل رپورٹ پر جاری اپنا حکم امتناعی خارج کردیا ہے اور حکومتی اداروں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ اس رپورٹ کے مطابق شوگر ملز مالکان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں ،اس اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی کی قیمت 70 روپے کلو مقرر کر کے اسے فروخت کرنے کا حکم دیا تھا ،نہ اس حکم پر عملدرآمد ہوسکا اورنہ ہی حکومت نے یہ کوشش کی کہ عوام کو چینی 70 روپے یہ کلو ملے ،حالانکہ شوگرملزایسوسی ایشن کی طرف سے حکومت کو یہ پیشکش کی گئی کہ وہ 70روپے کلو کے حساب سے یہ چینی خرید سکتی ہے ، مگر اس میں حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں لی ،الٹا یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کی طرف سے کہا گیا کہ شوگر ملز مالکان63روپے کلو کے حساب سے انہیں چینی فراہم کریں، تاکہ وہ عوام کو 70 روپے فی کلو کے حساب سے یہ چینی فراہم کر سکیں ،گویا کسی طرف سے بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ،اس سے پہلے یہ بھی دیکھا گیا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہوئیں اور اس کے ساتھ ہی پورے ملک میں پیٹرول نایاب ہوگیا۔
وزیراعظم عمران خان مسلسل یہ ہدایات جاری کرتے آئے کہ پٹرول کی مصنوعی قلت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے اور اس کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے مگر یہ باتیں بھی صرف باتوں تک محدودہیں ،اورسستے پیٹرول کا جوریلیف عوام کو ملنا چاہیے تھا وہ تا دم تحریر نہیں مل سکا اور پٹرول اب بھی مختلف شہروں میں نایاب ہے،اور اسے دگنی قیمتوں پر فروخت کیا جارہا ہے،اب سوال یہ ہے کہ حکومت کہاں ہے ؟ اور وہ اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کرا سکتی؟ کیا وجہ ہے کہ چینی سکینڈل پر انکوائری رپورٹ میں یہ بات ثابت ہونے کے باوجود کہ چینی کو بلاوجہ مہنگا کیا گیا ہے۔
جبکہ اس کے پیداواری اخراجات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی ،یہ مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس رپورٹ کے آتے ہی چینی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جاتی اور شوگر ملز مالکان کو مجبور کیاجاتا کہ وہ ناجائز منافع خوری چھوڑ کر پرانی قیمت پر چینی فراہم کریں، مگر اس کی بجائے حکومت کی طرف سے ڈھیلے ڈھالے اقدامات اٹھائے گئے ،لیت ولعل سے کام لیا گیا ،حتی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی مقرر کردہ قیمت پر بھی عوام کو چینی فراہم نہیں کی گئی ، یہ ساری حقیقتیں اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ملک میں حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آتی، اب آٹے کا بحران بھی اپنی پوری طاقت سے سر ابھار رہا ہے۔
ایک طرف توصوبائی حکومتیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ انہوں نے ہدف کے مطابق گندم خریدلی ہے اور دوسری طرف فلورملز مالکان آٹے کی قیمت میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں 20 کلو آٹے کا تھیلا جو آٹھ سو روپے میں دستیاب تھا اب 12 سوروپے میں بھی مشکل سے مل رہا ہے ، کہنے کو وزیر اعلی عثمان بزدار نے یہ حکم جاری کیا ہے کہ مہنگا آٹا بیچنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس بیوروکریسی سے جو اپنا اثرورسوخ کھو چکی ہے اور بے دلی سے کام کر رہی ہے، یہ ممکن ہے کہ وہ ایسے اقدامات پر عملدرآمد کر اسکے ،پنجاب کے دوسرے شہروں کی طرح ملتان،بہاول پور،ڈیرہ غازی خان میں بھی انتظامیہ بے بسی کا شکار ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے۔
پنجاب کے دوسرے شہروں کی طرح ملتان میں بھی شہر کے تین علاقوں میں سمارٹ لاک ڈاؤن کیا گیا ہے ،جن میں ایم ڈی اے چوک ، شاہ رکن عالم اور نیوملتان کے کچھ بلاکس شامل ہیں ،پہلے ایک دو دن تو خاصی سختی دیکھنے میں آئی ، لیکن پھررفتہ رفتہ وہی کمزوریاںنظر آنے لگیں ، جو پہلے کئے گئے لاک ڈاؤن میں دیکھنے کو ملیں ،وہی آمدورفت اور وہی کھلی دکانیں ،ان علاقوں میں لاک ڈاؤن کے فیصلے کا منہ چڑا رہی ہیں ،کوروناوبا کے آنے کے بعد جس محکمے کی سب سے زیادہ چاندی ہوئی ،اس کا نام پولیس ہے ، کیونکہ لاک ڈاؤن کے سارے اختیارات متعلقہ پولیس تھانے کے پاس عملی طورپرآچکے ہیں، وہ جسے چاہے بند کر دے اور جسے چاہے کھولنے کی اجازت دے دے ، ہفتہ اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
لیکن کبھی کسی ڈپٹی کمشنر یا سی پی او نے یہ گوارا نہیں کیا کہ وہ ان دو دنوں میں شہر کا ایک چکر لگائیں اور دیکھیں کہ کس طرح تھانوں کے ایس ایچ او’’ بادشاہ‘‘ بنے ہوئے ہیں اور انہوں نے اس لاک ڈااؤن کے حکم کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہے ایسے اقدامات سے اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کورونا وبا میں کمی آجائے گی تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتاہے ،حکومت دفعہ144 نافذ کرکے تمام پبلک مقامات پر ماسک پہننے کا حکم تو جاری کر چکی ہے مگر اس حکم پر عملدرآمد کون کرائے گا؟
اس کا فیصلہ ہی نہیں کیا گیا ،آج بھی 80 فی صدلوگ بغیر ماسک کی سڑکوں بازاروں اور پبلک مقامات پر نظر آتے ہیں،لوگوں کے لئے سمارٹ لاک ڈاؤن ،سیلکیٹڈ لاک ڈاؤن یا عمومی لاک ڈاؤن کی اصطلاحیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں ،دوسری طرف عالم یہ ہے کہ اموات کی شرح تیز رفتاری سے بڑھتی جارہی ہے ،کورونا کیسز میں بھی خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے، ابھی یہ کہا جا رہا ہے کہ جولائی کا مہینہ اس حوالے سے سخت ہوگا ،حیرت ہے کہ یہ چیز جب معلوم ہو چکی ہے تو کرفیو جیسے لاک ڈاؤن کی طرف کیوں نہیں جارہے، صرف یہی ایک ایسا حل ہے جو لوگوں کو گھروں تک محدود کر سکتا ہے، یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ پنجاب پولیس لاک ڈاؤن کے فیصلے پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔
جب تک رینجرز پولیس کے ساتھ تعینات نہیں کی جاتی ، اس وقت تک ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا ،کیونکہ پولیس کی روایتی کرپشن نے اس معاملے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے دکانداروں کو پکڑنا، تھانے لے جاکر پیسے وصول کرنا یا پیسے وصول کرکے دکان کھولنے کی اجازت دینا اور ایس او پیز پر عمل نہ کرنا، ایسی حقیقتیں ہیں، جو اب کسی سے سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ، یہ تمام اقدامات بڑے سانحات کو جنم دے سکتے ہیں۔