• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:زاہد انور مرزا۔۔۔ہیلی فیکس
حقوقُ ا لعباد میں سب سے اوّل اور مقدم حق والدین کریمین کا ہے۔قرآن پاک میں جہاں اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہاں والدین کے ساتھ حُسن سلوک محبت اور خدمت کا بھی حُکم دیا ہے اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں :وقضی ربُک الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احساناً،الی آخر الآیہ ، “ترجمہ”- تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔ قرآن مجید کا یہ حکم ہر مسلمان کے لیے فرض ہے۔ رب کائنات کے نزدیک والدین کی یہ عزت و تکریم کہ ان کے سخت اور تکلیف والے رویے پر بھی اولاد کو لفظ ُاف بھی کہنا ان کے مرتبہ کے خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے چہ جائے کہ ان کے ساتھ بد اخلاقی ، گستاخی اور بد سلوکی سے پیش آیا جائے حالانکہ لفظ ُاف کہنا کوئی بہت بڑی بے احترامی نہیں ہے عام بات چیت میں اس لفظ کو برا نہیں سمجھا جاتا، لیکن اس لہجے اور انداز سے مزاج کے خراب ہونے کی بو آتی ہے لہٰذااس کو بھی پروردگار عالم نے والدین کی شان میں گُستاخی اور خلاف ادب قرار دیا ہے جہاں لفظ ماں آیا جان لو کہ ادب کا مقام آیا میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں بھی سکون میسر نہ ہو کوئی بھی اُس کے دُکھوں کا مداوا نہ ہو پھر تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر اپنے دکھوں اور پریشانیوں کے باوجودایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے بادشاہت کے تخت پر بھی میسر نہ ہو گی اللہ جو خالق کا ئنات ہے اُس نے ماں سے بہتر شفیق و مہربان ہستی اس کائنات میں پیدا ہی نہیں کی یہ ہستی اپنے اندر محبت و پیار کا ایک ایسا لازوال ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر لئےہوئے ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اگر اولاد کو ذرا سا پریشان اور دکھ میں دیکھتی ہے تو فوراً محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے اور اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر محبت میں بدل دیتی ہے اور پھر سے زندہ رہنے کی امیدوں کو جواں کر دیتی ہے۔ اگر کا ئنات کے عجا ئبات کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو ماں خواہ جتنی بھی اولاد سے خفا ہو جائے مگر دل سے نہ خفا ہوتی ہے اور نہ بد دعا دیتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے تو اس ہستی کے ڈانٹ میں بھی محبت کا اظہار نظر آتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں زندہ اور حیات ہیں اور وہ اُن کی دعاؤں سے مستفیذ ہوتے ہیں اُن کے دیدار سے مقبول حج اور عمروں کا ثواب حاصل کرتے اور اللہ و رسول کی رضا اور جنت کی خوشبو پاتے ہیں اللہ تعالی کا فرمان ہے ’’ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکیداور نصیحت کی ؛ کہ ماں نے اسے دوران حمل تکلیف جھیل کر اٹھائے رکھا اور زچگی کے دوران بھی تکلیف اٹھائی‘‘[ الأحقاف: 15] بلکہ اگر جہاد والدین کی خدمت میں رکاوٹ بنے تو جہاد کی بجائے والدین کی خدمت کو بسا اوقات مقدم رکھا جائے گا۔ جیسے کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور جہاد میں شمولیت کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے استفسار فرمایا کہ(کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟) تو اس نے کہا کہ جی ہاں، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان دونوں کی خدمت میں جد و جہد کر) اس حدیث کو بخاری: (2842) اور مسلم: (2549) نے روایت کیا ہے۔ 1. والدین کو ایسی کوئی بات نہ کہیں جسے سن کر انہیں تکلیف ہو یا کوئی اقدام ایسا نہ کریں جسے وہ ناگوار سمجھیں۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے’’توا نہیںاف تک نہ کہہ ۔ [الإسراء: 23] تو اگر "اُف" کہنا حرام ہے تو انہیں تکلیف پہنچانے کا کیا حکم ہو گا؟!! اگر مالی طور پر والدہ کا ہاتھ تنگ ہو، اور ان کے اخراجات اٹھانے کے لیے ان کا خاوند بھی نہ ہو، یا خاوند تو ہو لیکن مالی استطاعت نہ ہو تو ان کے اخراجات برداشت کریں، بلکہ نیک لوگ ماں کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات اپنے بچوں کے اخراجات سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔جیسا کہ ایک واقعہ روایت کے اندر آتا ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تین آدمی پیدل چلے جا رہے تھے کہ بارش ہونے لگی ، اس پر انہوں نے پہاڑ میں ایک غار کی پناہ لی، تو اچانک ان کے غار کے منہ پر ایک چٹان آ گری جس سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ اس پر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: تم اپنے انتہائی نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعا کرو، اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے۔ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا۔ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا۔ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔ اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے اونچی آواز میں رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ ! اگر تیرے نزدیک میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ ۔۔" اس حدیث کو بخاری: (2102) اور مسلم: (2743) نے روایت کیا ہے۔ والدہ اگر کسی جائز کام کا حکم دے تو ان کے حکم کی تعمیل کی جائے، لیکن اگر کسی برائی کا حکم دے جیسے کہ شرکیہ کام وغیرہ کا تو یہ قاعدہ ہے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو وہاں مخلوق کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ اس بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت رکھنا۔ [لقمان: 15] 1. والدہ کی وفات کے بعد والدہ کے ذمے کفارے ادا کرنا، ان کی طرف سے صدقہ کرنا، حج یا عمرہ کرنا وغیرہ سنت سے ثابت اعمال ہیں۔ جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ: ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئی اور کہا: میری والدہ نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج کرنے سے پہلے فوت ہو گئیں، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کرو؛ کیونکہ تم خود ہی دیکھو کہ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اس قرض کو ادا کرتی؟ اسی طرح اللہ کا حق بھی ادا کرو؛ کیونکہ اللہ کے حق کو ادا کرنا زیادہ لازمی ہے) اس حدیث کو بخاری: (1754) نے روایت کیا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور کہا: (اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا: ان کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تمہارا والد) اس حدیث کو بخاری: (5626) اور مسلم: (2548) نے روایت کیا ہےنیز ماں نے ہی تمہیں اپنے پیٹ میں حفاظت کے ساتھ اٹھائے رکھا، اپنے سینے سے تمہیں دودھ پلایا، اس لیے ماں کی محبت لازمی چیز ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، بلکہ فطرت بھی اسی کی متقاضی ہے، اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ بچوں کی ماں سے اور ماؤں کی بچوں سے محبت تو جانوروں اور چوپاؤں میں بھی اللہ تعالی نے فطری طور پر رکھی ہے، اس لیے انسان میں ان سے بھی زیادہ ہونی چاہیے جبکہ مسلمان میں انسانوں سے بھی زیادہ ہونی چاہے۔ میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں کسی کو دل سے بدعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دکھ دیا اور وہ ناراض ہو گئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا اس لیے اس ہستی کا مقام اس کائنات سے بھی بڑا ہے اور محبت کی انتہا بھی اسی ہستی میں ہی ہے ((بقول شاعر تابش کے)) گردشیں لوٹ جاتی ہیں میری بلائیں لے کر گھر سے جب نکلتا ہوں میں ماں کی دعائیں لے کر لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی اک ماں ہی ہے جو مجھ سے خفاء نہیں ہوتی ماں دُنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی محبت کے سامنے ہرانسان کی محبت کم ترہے،ماں جیسی بے لوث محبت،خلوص اورایثارکوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ ماں اپناوجودکاٹ کر،اپنے حصے کی خوشیاں چھوڑ کراپنی اولاد کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں اوربڑے بڑے ارادوں میں ان کی مددگار ہوتی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کے سامنے صرف اورصرف اولاد کی بہتری اوراس کی خوشی ہوتی ہے۔ماں کی عظمت کااس سے بڑاثبوت کیا ہوگا کہ اللہ کریم جب انسان سے محبت کادعویٰ کرتاہے تواس کے لیے محبت کی مثال ماں کوبناتاہے اور کہتاہے کہ ’’میں اپنے بندے کے ساتھ سترماؤں سے بھی زیادہ محبت کرتاہوں۔‘‘ یعنی بے پناہ محبت کرتا ہوں۔اور نبئ مکرم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ’’اللہ نے ماں کے قدموں کے نیچے تمھاری جنت رکھی ہے۔‘‘ اس فرمان سے ماں کے مقام کااندازہ ہوتاہے کہ جوبھی شخص اپنی ماں کی خوشی کاخیال کرتاہے،اس کااحترام کرتاہے اوراس سے محبت کرتاہے تواللہ تعالیٰ اُس کے لیے جنت لکھ دیتے ہیں ماں کی عظمت کے بارے میں ایک واقعہ بہت اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے زمانے میں ایک صحابی جس کا نام علقمہ تھا قریب المرگ تھے کلمہ طیبہ کی تلقین کرنے کے باوجود اُس کی زبان پر کلمہ جاری نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی جان نکل رہی تھی۔ وہ نہایت تکلیف کے عالم میں تھا۔صحابہؓ میں سے کچھ لوگ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور ساری کیفیت بتائی۔آپﷺ نے پوچھا کیااس شخص کی والدہ زندہ ہے؟ بتایاگیا کہ یارسول اللہ زندہ ہے مگراس سے ناراض ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے گھر میں تشریف لے گئے آپ نے اُس صحابی کی والدہ سے فرمایا کہ اسے معاف کر دو تو والدہ نے معاف کرنے سے انکار کر دیا تونبی کریم نے صحابہؓ کوحکم دیا کہ وہ لکڑیاں اکٹھی کریں تاکہ اُس شخص کوجلادیاجائے۔ ماں فوراً چلا اُٹھی کیا یارسول اللہ آپ اس کو جلا دیں گے۔؟ فرمایا ہاں اس لیئے کہ جب آپ اس کو معاف نہیں کریں گی تو یہ جہنم کی آگ میں جلے گا یہ الفاظ سُننے تھے کہ ماں نے فوراً اُس کو معاف کردیا اس کے بعد اُن کی زبان پر کلمہ طیبہ بھی جاری ہوگیا اور وہ کلمہ پڑتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اگرہم دیکھیں تواندازہ ہوتا ہے ایک ماں کس قدراذیت،تکلیف اور محبت سے اپنے بچوں کوپالتی ہے۔ان کے لیے ہرطرح کے حالات کامقابلہ کرتی ہے تاکہ ان کی زندگی کی راحتیں اور خوشیاں میسر ہوں ۔سخت سرد کی راتوں میں جب بچے بستر پر پیشاپ کر کے گیلا کر دیتے ہیں توماں انھیں خشک جگہ پر ڈال کرخودگیلی جگہ پر لیٹ جاتی ہے۔ اس طرح کی ہزاروں قربانیاں ہیں جوایک ماں اپنے بچے کے لیے دیتی ہے۔ ماں ہی ایسی ہستی ہے جس پرانسان ہرطرح کااعتمادکرسکتاہے۔ اسے اپنے دکھ سکھ میں شریک کرسکتا ہے کیوں کہ اس سے زیادہ قابل اعتبارہم راز کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے باوجودبعض اوقات دیکھنے میں یہ آتاہے کہ اس عظیم ہستی کے ساتھ اس کی اولاد ناروا سلوک کرجاتی ہے۔ بعض معاشروں میں توبوڑھے والدین کو’’اولڈ ہومز‘‘ میں چھوڑ آتے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں بھی ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں ہوتی۔ کچھ لوگ والدین کے بڑھاپے میں اُ ن سے اکتاجاتے ہیں ۔ حالاں کہ نبی کریم کا دلوں کو ہلا دینے والا ارشاد گرامی جس میں جبرائیل علیہ السلام کی طرف سے بد دعا اور حضور علیہ السلام کا آمین کہنا کہ جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کوپایا اور اُن کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی وہ تباہ و برباد ہو جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آمین ، بعض لوگ ماں کااتنااحترام نہیں کرتے جتنااس کاحق بنتاہے۔ ایسی ہستی جوسراپامحبت ہے، اس کے ساتھ نامناسب سلوک دراصل اپنے ساتھ ظلم ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس شفیق ہستی کی محبتیں زیادہ سے زیادہ سمیٹیں اوراسے ہرحال میں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ سال میں صرف ایک دن ( مدَر ڈے )منالینے سے بات نہیں بنتی بلکہ ہرروزاپنی ماں کی خدمت کریں اورجن لوگوں کی ماں دُنیا سے رخصت ہوگئی ہے انھیں چاہیے کہ وہ اپنی ماں کے لیے ہروقت دعائے خیرکرتے رہیں۔ سیکڑوں صفات وخصوصیات اورمجاہدات و ریاضات کی خوشبوؤں سے ماں کا خمیر تیار ہوتا ہے اور جب وہ ماں دھرتی پر اپنے پاؤں رکھتی ہے تو اس کے پاؤں کے نیچے جنت رکھ دی جاتی ہے اسی ماں کے متعلق ذکر ہے ! آسمان نے کہا۔ ماں کی عظمت ورفعت افلاک کی وسعتوں سے بڑھ کر ہے۔ ! زمین نے کہا۔ ماں کے پیروں کی دھول میں بھی پھول اگتے ہیں ، ! چاند نے کہا۔ ماں ایسی میٹھی روشنی جس میں ممتا اور محبت کی کلیاں مسکراتی ہیں۔ ! چاندنی نے کہا۔ ماں ایسی روشنی ہے جس میں تپش نہیں ہوتی ۔ ! تا ریکی نے کہا۔ ماں ایک تابندہ ستارہ ہے جو اندھیرے میں روشنی بکھیرتی ہے۔ ! ستاروں نے کہا۔ ماں ایسی دیپ ہے جس کی تا بندگی کے آگے زہرہ، مریخ اور ثاقب کی بھی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ ! بادل نے کہا۔ ماں کی نظرِ کرم ابرِ رحمت کا خو شگوار سایہ ہے۔ ! سمندر نے کہا۔ ماں کا دل ساگر سے بھی زیادہ گہرا ہے، جہاں پر رنج وغم چھپ جاتے ہیں۔ ! مالی نے کہا۔ ماں ایک چمن ہے جس کے پھولوں کی رنگت کبھی ماند نہیں پڑتی۔ ! پھولوں نے کہا۔ ماں ایسی خوشبو ہے جس کے وجود سے پوری کائنات معطر رہتی ہے ! قدرت نے کہا۔ ماں میری طرف سے دنیا والوں کے لیے عظیم تحفہ اور انعام خداوندی ہے۔ ماں جس کی پیشانی میں نور، جس کی آنکھوں میں ٹھنڈک، جس کی باتوں میں محبت، جس کے دل میں رحمت، جس کے ہاتھوں میں شفقت، جس کے پیروں میں جنت اور جس کی آغوش میں پوری دنیا کا سکون رکھ دیا گیا اور پھر اس کی عظمت کا اعتراف خالق نے مخلوق سے اس طرح کرایا کہ خدا کی بندگی اور رسول کی پیروی کے بعد اطاعت وفر مانبرداری اور خدمت گزاری کا سب سے بڑا درجہ کسی کو حاصل ہے تو وہ ماں ہے۔ جس کو صرف محبت بھری نظرسے دیکھ لینے سے حج مبرور کا ثواب مل جاتا ہے۔ رب کائنات ہم سب کو والدین کی خدمت اور فر ماں برداری کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین یارب العالمین
تازہ ترین