لبنیٰ زہرہ
بدقسمتی سے آج ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں ہمیں اَن گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فکر کی بات تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی جانب سے قوم کو مسائل اور مشکلات کے بھنور میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس وقت معاشرے کوجو مہلک امراض لا حق ہوچکے ہیں ان کے علاج کے دوطریقے ہیں، یعنی ایک قانون کا سخت ہاتھ اور دوسرا تعلیم کاروشن راستہ کہ جس پر چل کرہی ہمارا ملک صحیح معنوں میں ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوسکے گا۔ بلاشبہ تعلیم ایسا مؤثر ہتھیار ہے، جو ملک سے غربت، جہالت، بے روزگاری، فرقہ واریت اور مذہبی اور نظریاتی تعصبات کا خاتمہ کرنے میں مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔
غور کیا جائے تو آج ہمیں جن سنگین مسائل اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان سب کی بنیادی وجہ ہی جہالت ہے۔ اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے ملک میں نچلی سطح سے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگوں کی سوچ تبدیل کی جاسکے گی، اس تبدیلی کے لیے قوم کے معماروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے ان کے ذہنوں کوروشن کرنا ضروری ہے، تعلیم ایک ایسا ادھورا خواب ہے، جسے شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے حکمرانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
سچ تویہ ہے کہ پاکستان کاسنہرا مستقبل تعلیم سے ہی وابستہ ہے، جس کا خواب بانیٔ پاکستان اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے علاوہ سرسیّد احمد خان نے بھی دیکھا تھا، مگر اس ملک پر جاگیردارانہ تسلط کی وجہ سے تعلیم کے شعبے کو مسلسل نظر اندازکیا گیا۔ اعدادو شمارکے مطابق ملک میں چوری ڈکیتی کی زیادہ تر وارداتوںمیں نوجوان ملوث ہیں۔
مشاہدے میں یہی آیا ہے کہ بعض تعلیم یافتہ نوجوان ملازمت نہ ملنے پر بددل ہوکر جرائم اور دیگر برائیوں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جرائم اور نوجوانوں میں بے راہ روی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے بعض نوجوان مایوس ہوکر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں کہ با صلاحیت نوجوانوں کو میرٹ کے مطابق ملازمتیں دستیاب ہوسکیں، تاکہ انہیں تعلیم مکمل ہونے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھانی نہ پڑیں اور نہ ہی وہ دل برداشتہ ہوکر کسی غلط راہ پر گام زن ہوسکیں۔
یہ بات کم وبیش سب کے علم میں ہے کہ سی ایس ایس ملک کی اعلیٰ سروس ہے، جس میں مقابلے کے امتحانات کے ذریعے مختلف شعبوں کے لیے تعلیم یافتہ اور اہل امید واروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پاکستان ابھی تک تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ملک کی فہرست میں شامل ہے۔ خصوصاً بلوچستان اور سندھ میں تو تعلیمی پسماندگی عروج پر نظر آتی ہے۔ عام طور پر ہمارے ہاں کے نوجوان 26 سے 28برس کی عمر میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرلیتے ہیں،جبکہ 30برس تک کی عمر کے نوجوان بھی سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ سکتے تھے۔
پڑوسی ملک بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں تعلیمی معیار کہیں زیادہ بہتر ہے، لیکن وہاں پر اس قسم کی کوئی شرط عائد نہیں ہے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اپنے ملک میں شرح خواندگی میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو حکمران اچھے اور بامقصد تعلیمی ادارے قائم کریں اور ایسا جدید تعلیمی نظام وضع کریں، جس کی بدولت ان پر جدید تعلیم وتحقیق کے دروازے کھل سکیں۔ دوسری جانب مستقبل کے ننھے معماروں کونچلی سطح سے سستی اور معیاری تعلیم مہیّا کرنے اور منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں اور تعلیمی اداروں میں کھیل کوفروغ دے کر بھی نوجوان نسل کو مصروف کیا جائے تاکہ وہ منفی رجحانات سے دور رہ سکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔
اگر وہ کھیل کے میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تویہ اربابِ اختیار کی ذمہ داری ہے کہ انہیں کھیل کے میدان اور کلب مہیّا کریں تاکہ وہ اپنے شوق کی تکمیل کرسکیں۔ آج پاکستانی قوم کٹھن حالات سے گزر رہی ہے، ایسے میں ہمیں اس حقیقت کو سمجھناہوگا کہ کوئی باہر سے آکر ہماری قسمت نہیں بدلے گا۔ ہمیں خود اپنے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
اس ضمن میں ملک کے63فی صد نوجوانوں کے کندھوں پر بھاری ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ وقت اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے علم کے حصول کی جانب اپنی تمام تر توجہ مرکوز رکھیں تاکہ اچھائی اور برائی میں فرق کرسکیں، اس وقت ملک و ملّت کودرپیش خطرات اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں نوجوانوں کی زیادہ ضرورت ہے۔
لہٰذا نوجوان نسل اپنی اہمیت کو سمجھے اور آگے بڑھ کہ نفرتوں اور بے راہ روی کورد کرتے ہوئے ملک پر چھائے ہوئےجہالت کے اندھیروں کو علم کی شمع سے منورکردیں۔