• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سید منور حسن بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ لمحہ لمحہ سانحات برپا کرنے والا سال 2020ء ہمیں ایک اور بڑے سانحے سے دوچار کر گیا۔ سید منور حسن کا شمار اپنے عہد کی ان بلند قامت شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں مورخ اس عہد کا حوالہ بنا کر تاریخ مرتب کرے گا۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کے کروڑوں مداح ان کے سانحہ ارتحال پر یقیناً بہت دکھی ہوں گے لیکن 26جون 2020ء کو ان کے انتقال کی خبر مجھ پر بڑی واردات بن کر اتری کیونکہ سید منور حسن میرے ہم دم دیرینہ تھے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں جن لوگوں سے دوستی ہوتی ہے، ان سے باقی زندگی بہت زیادہ گہرا اور پیار والا رشتہ محسوس ہوتا ہے۔

سید منور حسن سے میرا یہی رشتہ تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ وہ میرے سب سے قریبی دوست تھے۔

1957ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج ناظم آباد کراچی میں داخلہ لیا۔ کلاس میں پہلے دن جو سب سے پہلا میرا دوست بنا وہ سید منور حسن تھے۔ ہم نے چار سال ایک ساتھ گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں گزارے۔

ایف ایس سی اور پھر بی ایس سی میں ہمارے مضامین بھی ایک تھے۔ پھر ہم نے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے سوشیالوجی میں بھی ایک ساتھ داخلہ لیا اور مضمون کا انتخاب بھی ہم نے باہمی مشاورت سے کیا۔ اس طرح 6سے 7سال نہ صرف وہ میرے کلاس فیلو رہے بلکہ ہم کالج اور یونیورسٹی کے بعد بھی ہم محلہ ہوتے ہوئے ایک ساتھ ہی ہوتے تھے۔

ہم میں کئی باتیں مشترک تھیں۔ ہم دونوں کی سیاست سے گہری وابستگی تھی اور دونوں میں کچھ ایسا کرنے کی خلش تھی کہ جس سے انسانی معاشرے میں ظلم و ناانصافی ختم کرنے میں ہم کچھ اپنا کردار ادا کر سکیں۔ ہم سیاسی رومانویت کا شکار تھے اس لئے دوسرے شعبوں میں کیریئر بنانے کا ہم میں رجحان پیدا نہیں ہوا۔ سیاست میں بہت زیادہ سرگرم ہونے کے باوجود ہم دونوں کبھی فیل نہیں ہوئے۔ اگرچہ سیاست میں ہماری راہیں جدا ہو گئیں۔

وہ اس سیاسی فکر کی طرف چلے گئے، جنہیں دنیا دائیں بازو کی سیاست کا نام دیتی تھی اور میں بائیں بازو کی سیاست میں چلا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہماری دوستی مزید گہری ہوتی گئی اور زندگی بھر ہمارے درمیان کبھی نظریاتی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔ احترام اور محبت کا رشتہ ہمارے لئے نظریات سے زیادہ مضبوط تھا۔

میرا جو وقت سید منور حسن کی گہری رفاقت اور قربت میں گزرا، اس کی یادوں کو اگر تحریر میں لایا جائے تو ایک کتاب بن سکتی ہے۔ میں نے انہیں نوجوانی میں ایک باکردار اور مدبر شخص کے طور پر پایا۔

تعلقات میں احترام، لہجے میں شائستگی اور گفتگو میں وضع داری نہ صرف ان کی شخصیت کا خاصا تھی بلکہ اس سے ان کے اعلیٰ خاندانی پس منظر کا بھی پتا چلتا تھا، وہ بہت ہی نفیس مگر درویش انسان تھے۔

اس قبیلے سے تھے جو اس نظریے کیلئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں جو ان کے نزدیک حق اور سچ کا نظریہ ہوتا ہے اور حق و سچ کا معیار صرف اور صرف انسان کی ذات کی بھلائی ہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلیٰ بنے۔ امیر جماعت اسلامی کے قیم رہے اور پھر خود بھی جماعت اسلامی کے چوتھے امیر کے منصب پر فائز ہوئے جو اس خطے کی قدیم ترین مذہبی سیاسی جماعت کا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔

میری دوستی کا رشتہ ان سے ہمیشہ پہلے کی طرح قائم رہا۔ زندگی میں کئی مواقع ایسے آئے، جب ہم مخالف سیاسی کیمپ میں تھے لیکن انہوں نے نہ صرف میرے ساتھ بلکہ کسی کے ساتھ بھی کبھی نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ایسی بات نہیں کی جس سے اگلے کو رنج یا دکھ ہو۔ میں خود ایک سیاسی کارکن رہا ہوں اور اپنے عہد کی سیاست کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے جماعت اسلامی کے تاریخی سیاسی کردار کو بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

اس حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرنا چاہتا لیکن میری دانست میں مولانا مودودی کے بعد سید منور حسن جماعت اسلامی کے سب سے زیادہ دانشورانہ اپروچ رکھنے والے امیر تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی جماعت اسلامی کے ادارہ تحقیقات سے وابستہ کی اور آخری وقت تک شعبہ ریسرچ میں مشغول رہے۔

وہ میری دانست میں اپنے رجحانات میں ترقی پسند اور معروضیت پسند تھے اور غیر لچکدار اور رجعتی سوچ کے حامل نہیں تھے۔ واضح رہے کہ بعض ترقی پسند کہلانے والے لوگ بھی غیر لچکدار اور رجعتی سوچ کے حامل ہوتے ہیں۔ سید منور حسن گفتگو کرتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ نثری شاعری ہو رہی ہے۔

لکھتے تھے تو الفاظ خود بخود دلائل کی بنت (بافت) کر رہے ہوتے تھے اور دلائل میں جو پیش گوئیاں ابھر رہی ہوتی تھیں اور بعد میں وقت انہیں درست ثابت کرتا۔

نہ صرف میرا ایک پرانا دوست یہ دنیا چھوڑ کر مجھے بہت حد تک مار گیا بلکہ سیاسی میں رواداری، نظریات میں کٹرپن کی مخالفت، سماجی تعلقات میں احترام اور وضع دارانہ سیاست کو انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بنانے اور زندگی کی خواہشوں کو قلندرانہ مزاج کے تابع کرنے کا ایک عہد بھی بہت حد تک ختم ہو گیا۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

تازہ ترین