• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا شہر کراچی نہ صرف پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ یہ دنیا کا چھٹا بڑا شہر بھی ہے۔ کراچی کو مختلف القابات ملے جن میں خاص کر عروس البلاد (روشنیوں کا شہر) غریب پرور اور منی پاکستان زبانِ زد عام ہیں۔ یہ نام خیالی نہ تھے بلکہ اس شہر کی عملی تصویر تھے۔ غریب پروروں کے اس شہر کے در و بام ہر کسی کی روزی روٹی کا وسیلہ بنے۔ امیر اگر اپنے محلات میں پُرسکون تھے تو فٹ پاتھ پر سونے والوں کو بھی خوف نہیں ہوتا تھا۔ یہاں دیگر صوبوں سے روزگار کیلئے لوگ آئے تو یہ شہر منی پاکستان کہلایا جانے لگا۔ کسی ملک کے ایک شہر کی جانب اُسی ملک کے باشندوں کا اس قدر انخلا سماجی، نفسیاتی اور معاشی مسائل کا سبب بنتا ہے لیکن اس حوالے سے اپنے آبائی مسکن کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور کراچی آنے والے قصوروار نہ تھے بلکہ یہ ملک کو نرغے میں لئے ہوئے اُس استحصالی نظام کا نتیجہ تھا جمہوریت بھی جس کے آگے سجدہ ریز ہی رہی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کے ہر صوبے میں صنعتوں سمیت روزگار کے ایسے مواقع پیدا کئے جاتے کہ لوگ اپنے آبائی علاقوں کے قریب روزگار پاتے لیکن ہوا اس کے برعکس، کراچی کی جانب آبادی کا انخلا 80کی دہائی میں زیادہ ہوا جب ہم انہی عشروں میں صنعتوں کا حال دیکھتے ہیں تو وفاقی محکمہ شماریات کےمطابق 1981ء میں پاکستان میں 3815بڑی صنعتیں تھیں جن میں پنجاب میں 2070، پختونخوا میں 164، بلوچستان میں 24، اور سندھ میں 1557تھیں جن میں 1300صنعتیں صرف کراچی میں تھیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیوں دیگر صوبوں سے لوگ کراچی منتقل ہوئے، 1985ء میں پہلی مرتبہ سندھ سے زیادہ پنجاب میں صنعتوں کیلئے اجازت نامے جاری کئے گئے لیکن بلوچستان اور پختونخوا کیلئے ایسا نہ ہو سکا۔ ان تمام لسانی اکائیوں کی محنت کی وجہ سے رفتہ رفتہ یہ شہر ترقی کرتا ہوا روشنیوں کا شہر کہلانے لگا، کہا جاتا تھا کہ یہاں کی راتیں جاگتی ہیں۔ سرگرم، خوشحال، پُرامن، پُرجوش، رواں دواں اس شہر کو پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں فٹ پاتھ پر سونا تو درکنار لوگوں کو گھروں میں بھی امان حاصل نہ تھی، بوری بند لاشیں اس شہر کی پہچان بن گئیں۔ یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کا پس منظر لڑائو اور حکومت کرو کی وہ پالیسی تھی جس سے ایک دوسرے کو بھائی سمجھنے والے باہم دست و گریباں ہوئے۔ کراچی میں مگر لسانی مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف آمر ایوب خان کی نام نہاد کامیابی پر گوہر ایوب نے جشن کا اہتمام کیا۔ اس موقع پر مہاجر آبادیوں کو مشقِ ستم بنایا گیا۔ 1973ء میں بھٹو مرحوم اور 1986ء میں ضیاء الحق کے دور میں لسانی فسادات، ایک اور آمر پرویز مشرف کے دور میں 12مئی 2007ء کا واقعہ رونما ہوا۔ لیاری وغیرہ کے واقعات سمیت اگر تمام سانحات کو دیکھا جائے تو کراچی میں موجود کوئی بھی لسانی اکائی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ یہ تمام واقعات تین آمروں اور ایک مطلق العنان جمہوری حکمران کے ادوار میں ہوئے۔ کہنا یہ ہے کہ ایسے ہی واقعات تھے جن سے عروس البلاد کی روشنیاں ماند پڑنے لگیں۔ پھر اس شہر کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ جو بھی حکومت آئی اُس نے کراچی کو نچوڑنا ہی اپنے فرائض منصبی کا حصہ جانا۔ ملک کیلئے سب سے زیادہ ریونیو دینے والا عظیم الشان کراچی حوادث آمریت و جمہوریت کی وجہ سے آج ’’شہر گم گشتہ‘‘ لگ رہا ہے۔ سڑکیں کھنڈرات، پارکس ختم، کچرے کے ڈھیر، سیوریج کا بوسیدہ نظام، گزشتہ روز ایک ایم این اے نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ یومیہ کروڑوں روپے کا پانی ٹینکرز کے ذریعے بیچا جا رہا ہے اور عوام کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں، ایم کیو ایم کے من پسند ڈائریکٹروں اور زرداری صاحب کی مہربانی کی وجہ سے کے الیکٹرک سے کوئی پوچھنے والا نہیں، غریب بستیوں میں 24گھنٹے میں 16گھنٹے بجلی نہیں ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ مسائل سے مالا مال اس شہر کو مسائل کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاستدان جمہوریت کے استحکام کیلئے تو ایک قدم تک نہیں اُٹھا سکتے لیکن وہ کرپشن میں آزاد ہیں۔

تازہ ترین