• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں بہت عرصے تک اس خوش گمانی میں مبتلا رہا کہ میں ایک روذشن خیال پاکستانی مسلمان ہوں مگر گزشتہ روز تنہائی میں بیٹھ کر غورو فکر کیا تو مجھے احساس ہوا کہ روشن خیالی تومیرے قریب سے بھی نہیں پھٹکی۔ میں تو پکا رجعت پسند ہوں۔
خود کوروشن خیال تصور کرنے کی بظاہر بہت سی وجوہ میرے ذہن میں تھیں مثلاً میں ہمیشہ جمہوریت کا حامی رہا ہوں اور ڈکٹیٹر شپ مجھے کبھی ہضم نہیں ہوئی۔ یہ درست ہے کہ مشرف دور میں روشن خیالوں کی اکثریت مشرف کی زبردست حامی نظر آنے لگی تھی تاہم اس سے روشن خیالی کی Defination تبدیل نہیں ہوئی۔ صرف اس کی تاویل کرنے والوں کے لئے ایک نئی Defination کی ضرورت محسوس ہوئی۔ میں طالبان کی نام نہاد اسلام پسندی کو اسلام دشمنی پر محمول کرتارہا ہوں اور اب بھی اپنے اس خیال پر قائم ہوں۔ مجھے ملالہ کے ساتھ ہونے والے سلوک نے کئی راتیں سونے نہیں دیا۔ مجھے عورتوں کے حقوق سلب کرنے والے زہر لگتے ہیں۔ میں رقص ، موسیقی، مصوری، فلم، ڈرامہ، مجسمہ سازی اور دیگر فنون لطیفہ کو کسی معاشرے کی تہذیبی اور ثقافتی پہچان گردانتا ہوں چنانچہ افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمے مسمارکرنے والے مجھے تہذیب و ثقافت کے دشمن محسوس ہوئے۔ میں امن کا حامی اور جنگ کے خلاف ہوں۔ چنانچہ انڈیا سمیت دنیا کے تمام ممالک سے بہترین تعلقات چاہتا ہوں۔ مجھے آئین کی ان تمام شقوں اوردفعات سے اختلاف ہے جس کی وجہ سے پاکستانی قوم مختلف ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے اور جن کو ایکسپلائٹ کرکے کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو اسلام دشمن قرار دے کر اسے ہلاک کرسکتا ہے۔ میں خود کی آزادی کا قائل ہوں اوراس خیال کا حامی ہوں کہ ہر شخص کو ہر اس کام کی آزادی ہونا چاہئے جس سے کسی دوسرے فرد کو نقصان نہ پہنچتاہو اور اس کی آزادی خطرے میں نہ پڑتی ہو۔ مجھے شاعروں میں فیض#، ندیم#، فراز#، جالب# اور ساحر #پسند ہیں۔ میں مذہب کے نام پر سیاست کا سخت مخالف ہوں اور چاہتا ہوں کہ دنیاوی مقاصد کے لئے مذہب کا نام استعمال کرنے پرپابندی عائد کی جائے۔ میرے پسندیدہ کالم نگاروں میں ایاز امیر، خالد احمد (انگریزی والے) اور نذیر ناجی بھی شامل ہیں۔ میں پاکستان کو اس کی پانچ ہزار سالہ تہذیب کا وارث سمجھتاہوں۔ میں مقامی ثقافتوں کی نشوو نما اور ان کے فروغ کا خواہشمند ہوں۔ میرے ذاتی دوستوں میں سلیم اختر، مسعود اشعر، مظہر الاسلام اور اصغر ندیم سید بھی شامل ہیں۔ میرے نزدیک حقوق اللہ کا معاملہ انسان اور اس کے خدا کے مابین ہے جبکہ حقوق العباد کا تعلق خدا اور انسان دونوں کے ساتھ ہے۔ میں غاصبوں کے خلاف جدوجہد کے دوران بے پناہ قربانیاں دینے والے نیلسن منڈیلا کا عاشق ہوں چنانچہ یہ اوراس طرح کی دوسری بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر میں خود کوروشن خیال سمجھتا تھا مگر افسوس میری یہ خام خیالی تھی۔ گزشتہ روز تنہائی میں بیٹھ کر میں نے غور و فکر کیا تو احساس ہوا کہ روشن خیالی میرے قریب سے بھی نہیں گزری بلکہ میں تو اول درجے کا رجعت پسند ہوں!
مجھے اپنی یہ رجعت پسندی مختلف صورتوں میں نظر آئی مثلاً میں نے سوچا کہ میں کیسا روشن خیال ہوں جس نے ساری انسپائریشن اقبال سے حاصل کی ہے جو اپنی غیرمعمولی شاعری کے باوجود روشن خیالی کے معیارپر پورا نہیں اترتا کیونکہ دوسرے متعدد موضوعات کے علاوہ وہ عالم اسلام کو اس کی عظمت ِرفتہ یاد دلاتا رہتا ہے ۔ انہیں باربار خواب ِغفلت سے جگانے کیلئے بے چین اور مضطرب دکھائی دیتا ہے۔ ایک شاعر کو تو لادین ہونا چاہئے چنانچہ اگر ہمارے روشن خیال اقبال کو رد کرتے ہیں یا اس کی عظمت گہنانے کی کوشش کرتے ہیں تو میں کیسا روشن خیال ہوں جو انتظار حسین ایسے رجعت پسند کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتا رہا ہوں کہ اردو شاعری میں اگر ”عظیم“ کا لفظ کسی پر پھبتا ہے تووہ صرف اقبال پر پھبتا ہے! نیلسن منڈیلا کی قربانیوں کی وجہ سے میں انہیں ایک بہت بڑا آدمی سمجھتا ہوں۔ یہ میری روشن خیال کی دلیل ہے لیکن کشمیر کی آزادی کے لئے تاریخ کی ناقابل فراموش قربانیاں دینے والے سید علی گیلانی کے لئے میرے دل میں کیوں عزت ہے؟ ان کا تعلق تو جماعت اسلامی سے ہے۔ سواس اداس کردینے والے خیال نے بھی میری روشن خیالی کی تردید کردی۔ اسی طرح میں نے سوچا کہ جب ایاز امیر، خالد احمد اورنذیر ناجی ایسے روشن خیال میرے پسندیدہ کالم نگار ہیں تو عرفان صدیقی، جاوید چودھری اورسلیم صافی ایسے مذہب دوست میرے پسندیدہ کالم نگاروں کی صف میں کیسے شامل ہوگئے۔ میرے قابل احترام دوستوں سلیم اختر، مسعود اشعر، مظہر الاسلام اور اصغر ندیم سید ایسے روشن خیال دوستوں کی موجودگی میں سجاد میر#، عطا الرحمن اور اوریامقبول جان ایسے رجعت پسندوں کو میں نے اپنے دوستوں کی صف میں کیوں شمار کیاہے۔ پنجابی ادب کی خدمات کے حوالے سے مجھے شفقت تنویر مرزا (مرحوم) اچھے لگتے تھے لیکن پنجابی ادب ہی کے لئے گرانقدر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر شہباز ملک بھی مجھے کیوں اچھے لگتے ہیں کہ وہ تو مستند قسم کے رجعت پسند ہیں۔ مجھے اگرجالب# اپنی باغی شاعری کی وجہ سے اور اس کے نتیجے میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے نیزاپنی آزاد روی کی وجہ سے اچھے لگتے ہیں تو اس سے تو میری روشن خیالی کی تصدیق ہوتی ہے لیکن مجھے شورش کاشمیری اورنعیم صدیقی کیوں پسند ہیں جن کی ساری شاعری بغاوت پر مبنی ہے اوروہ طاغوت کے خلاف جدوجہد کے دوران قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے ہیں؟ تاہم ان کی رجعت پسندی تو روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے اوریوں مجھ ایسے روشن خیال انسان کو انہیں فوراً رد کردینا چاہئے تھا۔ اسی طرح میں نے سوچ کہ ملالہ پر طالبان نے جو ظلم کیا اس پر میری افسردگی تو سمجھ میںآ تی ہے لیکن عافیہ صدیقی پر امریکہ نے جو مظالم کئے میں اس پر بھی کیوں ملول ہوں؟ کیونکہ عافیہ تو کھلم کھلارجعت پسندی کی پرچارک ہے! خود میں نے اپنے بعض خیالات کے حوالے سے سوچا تو مجھے ان میں شدید قسم کی رجعت پسندی کی بو آئی۔ مثلاً اگر میرے سامنے کوئی شخص پاکستان کے خلاف یا اس کے قیام کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو مجھ سے وہ شخص برداشت نہیں ہوتا حالانکہ یہ رویہ روشن خیالی کے زمرے میں نہیں آتا۔ اسی طرح افغانستان میں جو لوگ قابض امریکی فوجوں کے خلاف نبردآزما ہیں میں انہیں بھی اسی احترام کی نظر سے دیکھتا ہوں جس طرح اسرائیل کے خلاف لڑنے والے فلسطینی مجاہدین کو یا جس طرح ان ویت نامیوں کو جوامریکی فوجیوں کے خلاف صف آرا تھے اورہم سب کی ہمدردیاں سمیٹتے تھے! میں عالم اسلام کے زوال پر بھی خواہ مخواہ پریشان رہتا ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے؟
یہ اور اس طرح کے دوسرے خیالات نے میری اس خوش فہمی کا پردہ چاک کردیا ہے جس میں، میں ایک عرصے سے مبتلا تھا۔ میں اپنے روشن خیال دوستوں سے شرمندہ ہوں کہ خود کوان کی صف میں شامل ہونے کے قابل نہیں سمجھتا تاہم آئندہ کے لئے میں نے فیصلہ کرلیاہے کہ کسی کے عمل کی بجائے اس کے نظریات دیکھ کر اسے قبول یا رَد کیا کروں گا… روشن خیالی اسی کا نام ہے! لہٰذ ا ہر خاص و عام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ میں فی الحال روشن خیال نہیں ہوں البتہ آئندہ روشن خیالی کی ان تمام شرائط کی من و عن پابندی کروں گا جس سے سرمو انحراف بھی رجعت پسندی کی ذیل میںآ سکتا ہے۔
تازہ ترین