لندن (جنگ نیوز) ایک امریکی صحافی کے قتل اور اغوا کے مجرم قرار دیئے جانےو الے ایک برطانوی پاکستانی شخص اور دیگر تین افراد جن کی سزائیں اپریل میں منسوخ کردی گئی تھیں مزید تین ماہ تک کسٹڈی میں رہیں گے۔ یہ اقدام 2002ء میں ڈینیئل پرل کے قتل کے مقدمے میں احمد عمر سعید شیخ کی بریت کے خلاف حکومت کی جانب سے درخواست مسترد کئے جانے پر پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے اس کی رہائی کی راہ ہموار کئے جانے کے بعد عمل میں آیا ہے۔ حکومت کے حکم کے مطابق سعید اور دیگر 3افراد فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب جو قتل کے مقدمے میں بری کئے گئے ہیں اور جن کی نطربندی یکم جولائی کو ختم ہوگئی ہے 90دن کیلئے کسٹدی میں رہیں گے۔ کراچی سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ حسن سہتو نے کہا ہے کہ چاروں افراد ایک قانون کے تحت جو کسی بھی مشتبہ شخص کو ایک سال تک حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے 30ستمبر تک کسٹڈی میں رہیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکم میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کی رہائی سے پبلک سیفٹی کو خطرہ لاحق ہوگا۔ سعید کے وکیل محمود شیخ نے کہا ہے کہ انہیں اپنے موکل کی نظربندی میں توسیع کا علم نہیں ،عدالت کے پہلے حکم کے تحت سعید کی بریت کے خلاف اپیل کی سماعت 25ستمبر کو ہوگی۔ سعید کو 2002ء میں وال اسٹریٹ جرنل کے رپورٹر ڈینئل پرل کے اغوا اور قتل کا مجرم پایا گیا تھا اور سزائے موت سنائی گئی تھی۔ اپریل میں سندھ ہائی کورٹ نے اس کی قتل کی سزا منسوخ کردی تھی اور اغوا پر سات سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ وہ سزائے موت کے قیدی ہونے کی حیثیت میں پہلے ہی 18سال جیل میں گزار چکا ہے اور اغوا پر اس کی 7سالہ سزا جو وہ وقت گزار چکا ہے اس حساب سے شمار کی جائے گی۔ دینئل پرل کے والدین ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف پاکستان کی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرچکے ہیں۔ ڈینئل پرل پاکستانی انتہا پسندوں اور رچرڈ سی ریڈ کے درمیان ریسرچ کرتے ہوئے 23جنوری 2002ء میں کراچی میں لاپتہ ہوگیا تھا۔ رچرڈ پیرس سے میامی جانے والی پرواز سے گرفتار کیا گیا تھا اس کے جوتوں سے دھماکہ خیز مادہ برآمد ہوا تھا اور اسے شوبابر کا نام دیا گیا تھا۔ فروری 2002ء میں امریکی سفارت کاروں کو ایک ودیو ٹیپ ملی تھی جس سے تصدیق ہوگئی تھی کہ 38سالہ ڈینیئل پرل مارا جاچکا ہے اس کا سرقلم کردیا گیا تھا۔