• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

34سالہ پرانا اراضی معاملہ، لاہور ہائیکورٹ، میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت خارج، فیصلہ مایوس کن، وائس چیئرمین پاکستان بار، صدر سپریم کورٹ بار

34سالہ پرانا اراضی معاملہ، لاہور ہائیکورٹ، میر شکیل الرحمٰن کی درخواست ضمانت خارج


لاہور(نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ نے جنگ گروپ اور جیو نیوز نیٹ ورک کے ایدیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف اور ضمانت پر رہائی کے لیئے درخواست مسترد کر دی۔ 

دو رکنی بنچ نے اڑھائی گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد پٹیشن ڈسمس؛ کہہ کے اپنا حکم سنایا۔لاہور ہائیکورٹ میں اراضی الاٹمنٹ کیس میں گرفتار میرشکیل کی درخواست ضمانت پر جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل بنچ نے سماعت کی۔ 

میر شکیل کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ عدالت میں پیش، نیب کی طرف سے سپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری عدالت پیش ہوئے جبکہ میر شکیل الرحمٰنکیخلاف ریفرنس میں مدعی اور گواہ اسد کھرل بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ 

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ ،وائس چیرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی، ممبر پاکستان بار کونسل احسن بھون، پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید قلب حسن لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ مسلم لیگ ن لائرز فورم کے رفاقت ڈوگر منیر احمد خان سول سوسائٹی کے عبداللہ ملک بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

میر شکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کیخلاف دائر ریفرنس کو بھی ضمانت کی درخواست میں ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہےنیب نے بے بنیاد اور جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا ہے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میر شکیل الرحمن پر ایسا کوئی الزام نہین کہ انھوں نے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا یا انھوں نے کسی کو مالی فائدہ پہنچایا یا اس وقت کے وزیراعلی ڈی جی ایل دی اے یا کسی افسر کو مالی فائدہ پہنچایا یا ان سے کوئی فائدہ لیا درخواست گزار پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں ہے۔ 

اس لیے آردیننس کا سیکشن 9اے6ان پر لاگو نہیں ہوتا پنجاب حکومت نے 54 پلاٹس کی ایگزمپشن قانون کے مطابق دی چیئرمین نیب میر شکیل کیخلاف انکوائری شروع کرنے کے مجاز نہیں تھے، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ میر شکیل پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لئے اختیارات سے تجاوز کا الزام بے بنیاد ہےنیب آرڈیننس1999میں آیا۔ 

بنچ کے سربراہ جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا کہ یہ ساری باتیں آپ نے کل کر دی تھیں کوئی نئی بات کریں امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999میں آیا جبکہ واقعہ 1986کا ہے اس لیئے آرڈیننس میں کی جانے والی ترمیم کا اطلاق بھی ماضی سے نہیں کیا جا سکتا آئین کے تحت بھی کسی شخص کو ایسے کسی قانون کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی جو وقوعہ کے وقت لاگو نہ ہو اور اسے بعد میں لاگو کیا جائے۔

نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد اعانت جرم کو موثر بہ ماضی نہیں کیا جا سکتا اس حوالہ سے اعلی عدلیہ کا مریم نواز شریف کے کیس کے فیصلہ کی نظیر موجود ہے جس کے تحت مریم نواز کی ضمانت منظور کی گئی۔

مریم نواز کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ اعانت جرم کے قانون کو موثر با ماضی لاگو نہیں کیا جا سکتا میر شکیل الرحمن پر اعانت جرم کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا ہم عدالت سے یہ نہیں کہتے کہ میر شکیل الرحمن کے خلاف نیب کی کارروائی ہی ختم کر دی جائے ہم صرف حقائق کی روشنی میں ضمانت پر رہائی کی استدعا کر رہے ہیں۔ 

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب آرڈیننس ملک میں رائج دوسرے قوانین کو ختم نہیں کرتا دوسرے قوانین بھی موجود ہیں اور وہ فورمز بھی کام کر رہے ہیں جن میں ان قوانین کے تحت آنے والے معاملات کا جوڈیشل ریویو ہوتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا کہ پہلے سے موجود قانون کی بجائے کسی اور قانون کے تحت کسی شخص کا ٹرائل کیا جائے خصوصی قوانین کی موجودگی میں کسی بھی کیس میں ٹرائل شروع کرنے کا اختیار ریاست کو نہیں دیا جا سکتا۔

میر شکیل کیخلاف نیب آرڈیننس کےتحت کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ ایل ڈی اے کا اپنا قانون اور عدالتیں موجود ہیں اور ان کا کیس نیب قانون کے تحت نہین آتا، ریفرنس کے دیگر ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو میر شکیل کو گرفتار کرنا آئین کے آرٹیکل 25 اے کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میر شکیل کو جب بھی نیب نے طلب کیا وہ پیش ہوئے سارا ریکارد اور اس ھوالہ سے جو بھی ان کے پاس معلومات تھیں وہ نیب کو فراہم کی گئیں نیب کا یہ دعوی بھی نہیں کہ ملزم طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ ۳۴ سال پرانا معاملہ ہے جس کی دستاویزات سرکاری دفاتر میں سے نیب کو جا چکی ہیں درخواست گزار سے کچھ برآمد نہیں ہونا یہاں معاملہ صرف ایک انسان کی آزادی کا ہے ایسا شخص جس کا گھر یہاں ہے، جو ہر طلبی نوٹس پر پیش ہوتا رہا اور شریک ملزم گرفتار نہ ہوں تو اسکے بارے میں نیب یہ کہے کہ اگر ضمانت ہوئی تو ملزم بیرون ملک فرار ہو جائے گا بڑی حیران کن بات ہے۔ 

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتون کے سامنے متعدد کیسون میں یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ کیا چیئرمین نیب کسی شخص کو کسی بھی مرحلہ پر کسی بھی وقت گرفتار کر سکتے ہیں یا نہیں تاہم انکوائری کے مرحلہ پر گرفتاری کے خلاف سندھ ہائیکورٹ کا سراج درانی کیس میں فیصلہ موجود ہے۔

انھوں نے کہا کہ نیب کو 54 کنال 5 مرلہ کی زمین پر کوئی اعتراض نہیں ہے،نیب آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب کو انکوائری میں جوڈیشل نظر ثانی کرنے کا اختیار نہیں ہے، میر شکیل الرحمن کے خلاف ریفرنس میں نیب نے قومی خزانے کو ایک دھیلے کے نقصان کی نشاندہی نہیں کی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے جوہر ٹائون میں پلاٹ کی ایک ہی قیمت ہے، 33 کنال نہر کنارے زمین کے بدلے میر شکیل کو 9 پلاٹ ہی دیئے گئے درخواست گزار سے ، 124 کنال اراضی جو ایکوائر کی گئی وہ 200 سے 300 گز دوری پر واقع تھی، 58 کنال 5 مرلے کی ایگزمپشن کو نیب تسلیم کرتا ہے لوگوں کو ایگزیمپشن دینے کے باوجود جوہر ٹائون میں 14 ہزار پلاٹس عام عوام کو فروخت کرنے کیلئے پڑے ہیں۔ 

انھوں نے کہا کہ کہین یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس وقت کے وزیراعلی نے لکھا ہو کہ اتنی اراضی کی بجائے اتنی اراضی دی جائے نیب جس قانون کی خلاف ورزی بتا رہا ہے وہ سول قانون بھی نہیں نیب کا کہنا ہے کہ اضافی اراضی کی کم قیمت دی گئی حالانکہ یہ نقصان کا کیس نہیں درخواست گزار نے اس وقت کے ایس او پیز کے مطابق ادائیگی کر دی تھی اس کے بعد ایل ڈی اے کی طرف سے کسی رقم کا کوئی تقاضہ نہیں کیا گیا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایگزمپشن پالیسی میں کہا گیا ہے کہ الاٹیز کو زیادہ سے زیادہ رعایت دی جائےزمین ایکوائر ہونے کے بعد ایوارڈ میں ترمیم کی گئی اور محمد علی کے 7 وارثان کو شامل کیا گیا اراضی کے اصل مالکان محمد علی کے قانونی وارثان کو بھی ایوارڈ کے حساب سے کم زمین الاٹ کی گئی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس وقت کے وزیراعلی کو بھجوائی گئی سمری میں کہیں بھی رعایت نہیں مانگی گئی1986ء میں جب میر شکیل کو پلاٹس الاٹ ہوئے تب ایل ڈی اے کا جوہر ٹائون کیلئے کوئی منظور شدہ ماسٹر پلان موجود نہیں تھا۔

27 اگست 1990ء کو ماسٹر پلان منظور ہوا نیب نے اس کیس میں 14 کروڑ 34 لاکھ کا نقصان ہونے کا صرف ایک الزام لگایا گیا ہے جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ ابھی آپ نے کہا کہ قومی خزانے کو نقصان نہیں ہوا اب آپ نقصان کو تسلیم کر رہے ہیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ58 کنال 5 مرلے کی زمین کی حد تک کوئی نقصان نہیں، اضافی گلیاں شامل کرنے کا الزام لگا کر نقصان کا ذکر کیا گیا64 لاکھ روپے واجبات کی ادائیگی کا جواب میں جواب دیا گیا۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ1992ء میں نواز شریف کی حکومت نہیں تھی1992ء میں واجبات کی ادائیگی کے نوٹس کے جواب کے بعد ایل ڈی اے کی طرف سے خاموشی رہی گھر تعمیر ہوا اس کا نقشہ منطور ہوا پھر یہ منتقل ہوا کسی بھی مرحلہ پر ایل ڈی اے نے یہ نہیں کہا کہ درخواست گزار کے ذمہ کوئی واجبات ہیں۔

1998ء میں گھر مکمل ہوا اور ایل ڈی اے نے سرٹیفیکیٹ جاری کیا، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ2016ء میں پھر سے میر شکیل کی جائیداد کے کیس پر جائزہ لیا گیا،پرائس اسسمنٹ کمیٹی کے ممبران بھی اس میں ملزم نہیں اگر میر شکیل نے کوئی ناجائز فائدہ حاصل کیا ہو، 1990ء میں ایل ڈی اے کی پالیسی میں تبدیلی آئی اور پرائس اسسمنٹ کمیٹی نے دوبارہ رقم مانگی۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ زمین کی قیمت کے معاملے پر میر شکیل کی فائل کا ایل ڈی اے میں کئی بار جائزہ لیا گیا،ایل ڈی اے پالیسی کا موثر با ماضی اطلاق کر کے میر شکیل کا نقصان کیا گیا، میر شکیل کی زمین 2 ہزار 88 روپے فی کنال کی لے کر 60 ہزار روپے فی کنال میں دی گئی،میر شکیل کو اکٹھا بلاک الاٹ کرنے میں کوئی لا قانونیت نہیں ہے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ مالی نقصان تو میر شکیل الرحمن کو ہوا ان سے 126کنال اراضی دو ہزار اٹھاسی روپے فی کنال خرید کر انھیں مالی نقصان پہنچایا گیا امجد پرویز کے دلائل مکمل ہوئے تو نیب سپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری کے دلائل شروع کیئے تو: عدالت نے کارروائی میں 10 منٹ کا وقفہ کر دیاعدالتی وقفے کے بعد نیب پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری دلائل شروع کیئے اور کہا کہ12 مارچ 2020ء کو میر شکیل الرحمن کے خلاف انکوائری کی منظوری ہوئی، ملزم کی طرف سے صرف عبوری تعمیر کی درخواست دینے کی دلیل بے بنیاد ہے۔

نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ میر شکیل 54 کنال زمین کے حقدار تھے، میر شکیل کو 56 کنال زمین الاٹ کی گئی،3 جولائی 1986ء میں اس وقت کے ڈی جی ہمایوں فیض رسول نے میر شکیل کی درخواست پر خصوصی رعایت دینے کا کہا،ہمایوں فیض رسول کو اس کیس میں ملزم بنایا گیا ہے۔

نیب پراسکیوٹر کے مطابق1 کنال کے 15 پلاٹ ایگزمپشن پالیسی کے تحت دیئے جانے تھے،باقی زمین کی ایگزمپشن پر ایک کنال سے کم سائز کے پلاٹس تین مختلف جگہوں پر دیئے جانے تھے۔

نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ ریفرنس کے گواہ پٹواری بشیر احمد کی رپورٹ نشاندہی کے مطابق 59 کنال 3 مرلے زمین میر شکیل کے پاس ہے، پالیسی کے مطابق میر شکیل 54 کنال زمین ایگزمپشن کےحقدار تھے،ایل ڈی اے نے 56 کنال الاٹ کرنے کی سمری بنائی۔

نیب پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری کا کہنا تھا کہ درخواست گزار 59 کنال 3 مرلے 77 فٹ رقبے پر قابض ہے ان کا تمام رقم ادا کرنے کا دعوی بھی بے بنیاد ہے 29 اکتوبر 1992ء میں 64 لاکھ روپے کی رقم شاہینہ شکیل کو ادا کرنے کا نوٹس ایل ڈی اے نے بھجوایا مگر انھوں نے مطلوبہ رقم ایل ڈی اے کو ادا نہیں کی۔

درخواست گزار نے زیادہ زمین حاصل کرنے کے بعد رقم جمع نہیں کروائی اور اسی بنیاد پر 14 کروڑ 34 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے،2016ء میں میر شکیل نے 12 لاکھ روپے فی مرلے کے حساب سے 3 مرلے کی رقم جمع کروائی۔

نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکے گھر میں 4 کنال2 مرلے کی سڑکیں شامل کی گئی ہیں لہذا عدالت درخواست مسترد کردے عدالت نے اڑھائی گھنٹے فریقین کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد میر شکیل کی ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی۔ 

دریں اثنا عدالتی فیصلہ کے بعد کمرہ عدالت میں موجود پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی اعظم نذیر تارڑ سپریم کورٹ بار کے صدر قلب حسن پاکستان بار کونسل کے رکن احسن بھون لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ اور دیگر سینئر وکلا نے میر شکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز ملک کے دلائل پر ان کی تعریف کی تاہم وکلا رہنماوں نے فیصلہ کو مایوس کن اور تکلیف دہ قرار دیا۔ 

تازہ ترین