• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی احتساب بیورو ( نیب) کی کارکردگی پر ایک بار پھر سپریم کورٹ آف پاکستان نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے تو یہ بھی ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب کا ادارہ درست طور پر نہیں چل رہا۔ مقدمے درج ہو رہے ہیں، فیصلے نہیں ہو رہے۔ 20،20سال سے احتساب عدالتوں میں ریفرنسز زیر التوا ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے یہ بھی سوال کیا کہ کیوں نہ نیب عدالتیں بند کرتے ہوئے نیب آرڈی ننس کو ہی غیر آئینی قرار دے دیا جائے۔

فوری طور پر سپریم کورٹ نے مسئلے کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ احتساب کی 120 نئی عدالتیں قائم کی جائیں کیونکہ اس وقت احتساب کی صرف 25 عدالتیں ہیں، جن میں سے پانچ عدالتوں میں جج بھی نہیں ہیں۔ قانون کے مطابق ریفرنسز کا فیصلہ 30 دن کے اندر ہونا چاہئے۔ نیب کے پاس 1226 ریفرنسز زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ میں یہ ریمارکس بھی دیئے گئے کہ اگر ان سارے مقدمات کو موجودہ نیب کی عدالتیں مقررہ مدت کے اندر نمٹانا بھی شروع کر دیں تو اس کے لیے ایک صدی درکار ہو گی۔ 20،20 سال سے مقدمات کے فیصلے نہیں ہوئے۔ عدالت عظمیٰ نے تو یہ تجویز اس لیے دی ہے کہ مقدمات کا فیصلہ جلد از جلد ہو اور لوگوں کو انصاف ملے لیکن نیب، نیب کی عدالتوں اور نیب آرڈی ننس کے بارے میں جو سوالات فاضل عدالت نے کیے ہیں؟ ان کے بارے میں پاکستان کی سیاسی قوتوں کو سوچنا چاہئے۔

اگر نیب کی عدالتیں 25 کی بجائے 145 ہو جائیں اور ان میں قابل ترین جج صاحبان کا تقرر بھی ہو جائے تو کیا فیصلے جلد ہونے لگ جائیں گے؟ اس پر بھی سوچنا چاہئے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ نیب کے تحقیقاتی اور استغاثہ کے افسران جب تک اپنا کام نہیں کریں گے اور مقدمے کو اس قابل نہیں بنائیں گے کہ عدالت اسے آگے چلا سکے تو فیصلے کس طرح ہوں گے۔ مقدمات میں مطلوبہ ٹھوس مواد اور شواہد کی کمی ہوتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب خود نیب آرڈی ننس ہے۔ جو نیب کے افسران کو ٹھوس شواہد نہ ہونے کے باوجود ملزمان کی گرفتاری کا اختیار دیتا ہے۔ اس سے ملزمان کا میڈیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔ نیب کے افسران اور پراسکیوٹرز اس وجہ سے بھی مقدمے کا مواد حاصل کرنے کے لیے محنت نہیں کرتے کہ الزامات کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزمان پر ہوتی ہے۔ نیب کے لا افسران صرف عدالتوں میں ملزمان کی ضمانتوں کی درخواستوں پر بے سروپا دلائل دیتے ہیں یا دوسرے حربے استعمال کرکے ملزمان پر دباؤ ڈالتے ہیں اور عدالتوں سے باہر معاملات طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو ملزمان خوف زدہ ہیں، وہ مبینہ کرپشن کی رقم واپس کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں، جسے ’’پلی بارگین‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ نیب کے کریڈٹ میں صرف پلی بارگین سے رقم وصول کرنا ہے، جس کی شاید ملزمان نے کرپشن کی بھی نہ ہو۔ صرف اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کی خاطر وہ یہ رقم ادا کر دیتے ہیں۔ بعض لوگوں نے تو ’’ذلت‘‘ کے خوف سے خودکشی بھی کرلی ۔

مہذب اور جمہوری معاشروں میں پہلے تو نیب جیسا قانون پارلیمنٹ سے منظور ہی نہیں ہوتا۔ اگر کسی طرح ہو بھی جاتا تو فورا ً منسوخ کر دیا جاتا۔ موجودہ نیب آرڈی ننس جس طرح پارلیمنٹ سے منظور کرایا اور جن قوتوں نے اسے منظور کرایا، اس حوالے سے اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ تجاہل عارفانہ کا شکار ہے۔ یہ آرڈی ننس بنیادی طور پر ’’ایبڈو‘‘ اور ’’پرو ڈا‘‘ کا چربہ معلوم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیاست کو کمزور کرنے اور جمہوریت کی بات کرنے والے سیاست دانوں کو سبق سکھانے کے لیے ایبڈو اور پروڈا اور اس جیسے ’’احتساب ‘‘ کے سیاہ قوانین بنائے گئے تھے۔

جب عدالت یہ سوالات کر رہی ہے کہ کیوں نہ نیب کی عدالتوں کو ختم کرکے نیب آرڈی ننس کو غیر آئینی قرار دے دیا جائے؟ اب اس سوال کا جواب سیاست دانوں نے خود تلاش کرنا ہے۔ میرے خیال میں عدالت یہ کام نہیں کرے گی کہ نیب کی عدالتیں ختم کر دے، جو کہ از خود ایک متوازی عدالتی نظام ہے اور نہ ہی نیب آرڈی ننس کو غیر آئینی قرار دے گی کیونکہ یہ کام تو خود وہ سیاست دان بھی نہیں کر سکے، جو نیب کے ادارے اور نیب کے قانون کے سب سے بڑے مخالف تھے اور ان کے موقف میں وزن بھی تھا۔ سیاست دان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ نیب کو سیاسی انتقام کا آلہ کار ادارہ قرار دیتے ہیں اور جب حکومت میں ہوتے ہیں تو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے اس کی حمایت کرتے ہیں اور کرپشن کے خلاف احتساب کے بڑے چیمپئن بن جاتے ہیں۔ انہیں جرات نہیں ہوئی کہ وہ ان سوالوں پر غور کرتے، جو آج عدالت کر رہی ہے اور خود اپوزیشن میں کرتے تھے۔ پاکستان تحریک انصاف کی پوزیشن دوسری ہے۔ وہ کرپشن ختم کرنے کے نعرے پر حکومت میں آئی ہے۔ اگر عدالت نیب کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہی ہے تو وہ دیگر سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے احتساب کا نیا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرا سکتے ہیں اور موجودہ نیب اور نیب کے قوانین کو بنانے والی قوتوں سے کہہ سکتے ہیں کہ نیب کی وجہ سے ان کی حکومت پر حرف آ رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے کہ وہ وسیع تر مشاورت سے احتساب کےنئے نظام کے لیے اقدامات کرے۔ اگر تحریک انصاف یہ سمجھتی ہے کہ اس کے سیاسی مخالفین موجودہ نیب کے ادارے اور نیب کے آرڈی ننس کے قہر کی زد میں ہیں۔ لہٰذا اسے نہیں چھیڑنا چاہئے تو وہ ذرا میاں نواز شریف اوران کے ساتھیوں سے پوچھ لیں، جنہیں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کہا تھا کہ اس آرڈی ننس میں ترمیم کریں اور وہ نہیں مانے تھے۔ جی ہاں وہ بھی نہیں مانے تھے، جو اب منصف بھی کہہ رہے ہیں ۔

تازہ ترین