• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تبدیلیاں لانے پر کھلے دل سے گفتگو ہونی چاہئے، اسد عمر

اسلام آباد (مہتاب حیدر) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد کے منظر نامے میں مرکز اور صوبوں کے مابین کوآرڈینیشن سے متعلق کچھ اختلافات سامنے آئے تھے لہٰذا اس میں تبدیلیاں لانے پر کھلے دل سے گفتگو ہونی چاہئے۔

مائنس ون فارمولے کا امکان مسترد کرتے ہوئے وزیر کا کہنا تھا کہ مائنس ون کے ذریعے پی ٹی آئی کو بے دخل کیا جاسکتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی اکثریت کی موجودگی میں کوئی بھی مائنس فارمولے کے تحت عمران خان کو بے دخل نہیں کرسکتا کیونکہ 99 فیصد ووٹ بینک ان کا ہے۔

گزشتہ ہفتے وزارت منصوبہ بندی کے وزارتی دفتر میں دی نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترامیم اور این ایف سی ایوارڈ ایک دوسرے کے عکاس ہونے چاہئیں جیسا کہ ذمہ داریوں کو وسائل شیئر کے مطابق تفویض کیا جانا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ دونوں پر قومی سطح پر کھلے دل اور پی ٹی آئی حکومت کے نقطہ نظر کے ساتھ تبادلہ خیال کیا جانا چاہئے۔ وزیر کا کہنا تھا کہ اختلافات موجود ہیں اور اس کا احساس سب کو ہے جس کے بعد این سی او سی ہر روز ملے کیونکہ اگر صحت کی درست سہولیات کے بارے میں کوئی مناسب کوآرڈینیشن نہیں ہوگا تو کووڈ 19 سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی کیسے کی جاسکتی ہے۔

ان سے مائنس ون فارمولا کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کی یہ مائنس ون منظر پر کہاں سے آیا ہے لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ اگر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں تو پی ٹی آئی کو مائنس ون کے طور پر بے دخل کیا جاسکتا ہے لیکن پی ٹی آئی کی اکثریت کی موجودگی میں وزیر اعظم عمران خان کو کسی مائنس ون فارمولے میں بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ مائنس ون گزشتہ 12 سالوں سے سن رہے ہیںجب زرداری صدر تھے، نواز شریف اقتدار میں آئے اور اب عمران خان اقتدار میں ہیں تو وہی منتر بغیر کسی بنیاد کے جاری ہے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ جیو اور دیگر ٹی وی چینلز پر مباحثے ٹیلی کاسٹ کرنے کی ضرورت ہے جیسے امریکی ابتدائی انتخابی مہم کے دوران امیدواروں کے ذریعے کیے گئے تھے، پھر پاکستانی عوام جان لیتی کہ کیسے انہوں نے ایک دوسرے کو بلایا اور سلوک کیا۔

ایسا برطانیہ میں ان کی انتخابی مہم کےدوران بھی کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پارلیمان فعال ہے لہٰذا اس حوالے سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

تازہ ترین