سال 2015اور 2019کے بعد کراچی کے عوام ایک بار پھر بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کے رحم وکرم پہ ہیں۔
کے الیکٹرک حالیہ لوڈ شیڈنگ کو وفاقی حکومت کےعدم تعاون کے کھاتے میں ڈال رہی ہے جبکہ وفاقی حکومت اس کا ذمہ دار کے الیکٹرک کی بدنظمی اور گرڈ اسٹیشنوں سے ٹرانسمیشن لائنز تک فرسودہ نظام کو ٹھہراتی ہے۔
عوامی نمائندوں کا یہ حال ہے کہ حکومت سے اپوزیشن تک سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی سراپا احتجاج ہے تو تحریک انصاف مسئلے کا ذمہ دار اسے گردانتے ہوئے دشنام طرازی کر رہی ہے۔ نیپرا حسب روایت عوامی سماعت کے بعد فائلوں کا پیٹ بھر کے ہاتھ پہ ہاتھ دھر لے گی۔
کیونکہ اسے بخوبی ادراک ہے کہ کے الیکٹرک کے ساتھ ماضی میں کئے گئے معاہدے کی وجہ سے وفاقی حکومت کے ساتھ بطور ریگولیٹر وہ بھی بےبس ہے، وہ زیادہ سے زیادہ جرمانہ عائد کر سکتی ہے جس کے خلاف بھی کے الیکٹرک سندھ کی عدالتوں سے حکم امتناع لے لیتی ہے۔ قارئین وفاقی و صوبائی حکومت اور نیپرا کے الیکٹرک کے خلاف بے بس کیوں ہیں؟ اس کی کہانی کچھ یوں ہے۔
ایک کمپنی تھی کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے ای ایس سی)، سال 2-2001میں اس کا خسارہ بڑھتے ہوئے 17 ارب 74کروڑ تک تجاوز کر گیا تو اس کی نجکاری پہ غور شروع کر دیا گیا، پرویز مشرف کے دور آمریت میں فروری 2005میں نجکاری کمیشن نے بولیاں طلب کیں۔
خلیجی ملک کی ایک کمپنی نے سب سے زیادہ بولی دی تاہم وہ مقررہ وقت میں ادائیگی نہ کر سکی۔ اس کے بعد از سر نو نیلامی کے بجائے اسی ملک کی ایک بروکر کمپنی سے مذاکرات کیے گئے اور حکومت پاکستان نے اسے کنسورشیم بنانے کی تجویز دی۔
کنسورشیم قائم کر دیا گیا جس میں صرف 15ارب 86کروڑ روپے میں کے ای ایس سی کو فروخت کر دیا گیا۔ اس بروکر کمپنی کا تجربہ بجلی کی بجائے تعمیرات کے شعبے میں تھا جبکہ سب سے زیادہ حصص والی کمپنی کا تجربہ آٹو موبائل شعبے کا تھا۔ یک نہ شد دو شد کے مصداق اس کنسورشیم نے جرمنی کی کمپنی سیمنز کو تکنیکی معاون مقرر کیا جس کا بجلی سے بس اتنا واسطہ تھا کہ وہ بجلی کے اپلائنسز تیار کرتی تھی لیکن اس نے ہی کے ای ایس سی کے نئے گرڈ اسٹیشن قائم کیے۔
حکومت نے نجکاری کے بعد کے ای ایس سی کو فعال کرنے کے لیے قومی خزانے سے 14ارب روپے فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرادی جبکہ اس وقت کے ای ایس نے صارفین سے مجموعی طور پر 29ارب روپے وصول کرنے تھے۔ دوسری طرف جب کے ای ایس سی کی نجکاری کی گئی تو اس وقت اس کے اثاثوں کی مالیت 200ارب روپے سے زائد تھی۔
آٹوموبائل کے شعبے میں تجربے کی حامل خلیجی کمپنی جب 2005سے مارچ 2008تک کراچی کے صارفین کو بجلی کی فراہمی میں ناکام رہی تو اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے از خود ہی کے ای ایس سی کو دوسرے خلیجی ملک کی کمپنی ابراج کو فروخت کردیا۔ ابراج نے اس کا نام کے الیکٹرک کردیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ پہلے سے طے معاہدے میں2009 میں اپنی مرضی کی ترامیم کرا لیں۔
ان ترامیم کے لیے بھی نجکاری کمیشن کے بجائے وزارت پانی وبجلی کے ساتھ ترمیمی معاہدے پر دستخط کئے گئے تب وفاقی وزیر پانی و بجلی کا قلمدان راجہ پرویز اشرف کے پاس تھا۔
معاہدے میں ترامیم کے تحت شامل کی گئی نئی شق 8.6میں واضح کر دیا گیا کہ اگر کسی بھی موقع پر حکومت پاکستان کے ای ایس سی کو اپنی تحویل میں لے گی تو اسے اس کے ذمہ موجودہ اور مستقبل کے تمام واجبات ادا کرنا ہوں گے۔
ابراج نے یہ چالاکی اس لیے دکھائی کیونکہ وہ اس وقت تک کے الیکٹرک کی انتظامیہ اس کی زمین،آلات اورگرڈ اسٹیشنز تک گروی رکھوا کر عالمی اور ملکی مالیاتی اداروں سے اربوں روپے قرضہ لے چکی تھی۔
ترامیم میں یہ بھی شامل کرایا گیا کہ کمپنی کے ذمہ این ٹی ڈی سے کے تمام واجبات کی ادائیگی بھی حکومت پاکستان کرے گی جبکہ بجلی کی قیمت میں سات سال تک اضافہ نہ کرنے کی پابندی بھی ختم کرا لی گئی۔
کمپنی کاکردگی کو بہتر بنانے کے لیے خطیر سرمایہ کاری کرنے کی شرط بھی ختم کر دی گئی۔ آج یہی معاہدہ وفاقی حکومت اور نیپرا کے پاؤں کی بیڑیاں بن چکا ہے۔ اب کے الیکٹرک کے خلاف دھرنا دینےو الی ایم کیو ایم اور کراچی کے عوام کے دکھوں پہ ہمدردی جتانیو الی مسلم لیگ ق کے ای ایس سی کی نجکاری کے وقت پرویز مشرف کی ہمرکاب تھیں۔
آج کراچی کے عوام کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانے والی پیپلز پارٹی وہی ہے جس نے کے الیکٹرک کے ساتھ معاہدے میں ملکی مفاد کے خلاف ترامیم شامل کیں۔
مسلم لیگ ن بھی اس حد تک ذمہ دار کہ اس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان اور عوام کے لیے انتہائی نقصان دہ معاہدے کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
معاہدے کی متعلقہ شق کی پابندی ختم ہونے کے باوجود کئی برسوں سے کے الیکٹرک کو نیشنل گرڈ سے ساڑھے چھ سو اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ بجلی اور اربوں روپے کی سبسڈی فراہم کی جا رہی ہے جبکہ کے الیکٹرک عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں آزاد ہے۔
رہی بات تحریک انصاف کی تو اس کے ارکان احتجاج کرنے اور ماضی کے حکمرانوں کو کوسنے کے علاوہ عملی طور پہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
اس بیان کردہ کہانی کی روشنی میں آپ بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ کراچی کے عوام کو اس جہنم میں دھکیلنے کے ذمہ دار ایوان میں دہائیاں دیتے وہی سب ہیں جنہوں نے آج منہ پہ ماسک اور ہاتھوں پہ دستانے چڑھا رکھے ہیں۔