• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ بارش کے بعد کراچی میں ہونے والے ٹریفک جام سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوا کہ تقریبا تمام سماجی اور کاروباری سرگرمیاں جا رہی ہیں۔ سڑکوں پر گاڑیوں کا بڑھتا ہوا استعمال اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ لوگ اب نارمل روٹین کی طرف واپس آ رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اب کورونا سے کم متاثر ہورہے ہیں لہذا ان کے اندر سے کورونا کا خوف بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ ویسے بھی حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کورونا کے مریضوں کی تعداد کم ہوتی چلی جارہی ہے اور لوگوں کے اندر سے خوف و ہراس بھی کم ہوتا جا رہا ہے ہے۔ لہذا اب وقت آچکا ہے کہ ہر طرح کی معاشی سرگرمیاں کچھ احتیاط کے ساتھ شروع کی جائیں۔ جس میں تعلیمی اداروں کے کھلنے ان میں احتیاط کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ کیونکہ حقیقت پسندی کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ہماری معیشت کا پیہہ صحیح معنوں یہ شعبہ ہی آگے بڑھاتا ہے۔ سب سے بڑھ کر کتنے افراد کو اس سال اپنی تعلیم کا آخری سال مکمل کرکے Labour Force یعنی مزدور طبقہ میں داخل ہونا تھا ۔ یوں کئی ہزار افراد جو اس وقت معیشت پر بوجھ بننےکے بجائے اپنی کارکردگی (productivity ) دکھا کر معیشت کو آگے بڑھا سکتے تھے۔ وہ ابھی تک market میں absorbed (جذب) نہیں ہو سکے ہیں۔بالکل اسی ملک میں بڑھتی ہوئی نجی شعبے کی جامعات جن کا مقصد صرف اعلی تعلیم دینا ہی نہیں بلکہ اساتذہ اور تعلیمی شعبے سے منسلک افراد کو باعزت روزگار بھی جس کے لئے منافع کا حصول بہت ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے وہ جامعات نا تو اپنی منفرد داخلہ پالیسی کو اپنا سکیں نا ہی بروقت داخلہ اور آخری سال کے بچوں کو فارغ کرسکیں ۔ جس کی بدولت انکے حالیہ بجٹ میں بہت سی ردوبدل ہوگی جو کسی طور بھی مناسب نہیں ۔اس سے نجی شعبے کی جامعات کے مالکان کو شدید نقصان اور معاشی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔کچھ اسی طرح کی صورتحال کالجز، سیکنڈری اور پرائمری سطح پر چلنے والے اداروں کی بھی ہے۔ایسی صورتحال میں وہ اپنی آپریشنل اخراجات بھی پورے نہیں کر پاتے جو وہ دوسروں کو رزق دینے کی یقین دہانی کرائیں۔ لہذا اب ضرورت ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے اور چلتے ہوئے کاروباروں کو بندش سے بچایا جائے۔ایک اور اہم ترین ایشو جو کہ اس بارش میں نظر آیا کہ ھمارے بلدیاتی ادارے سارے انتہائی ناقص اور نااہل افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ندی نالوں کی صفائی نہیں ہوتی الٹا ان پہ قبضہ ہو کرکے تعمیراتی قائم کرلینا نا بہت عام سی بات ہے ۔ کیونکہ عام تاثر یہ ہے کہ کراچی میں تو بارش ہی نہیں ہوتی ہے تو ان ندی نالوں کی صفائی کیا ضرورت ہے۔ دباکے یہاں پر کچرا پھینکا جاتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا ادارہ فعال نہ ہوسکا ہے۔ نتیجتا جب بھی یہاں بارش ہوتی ہے بری طرح سے نالے ابل جاتے ہیں ۔اور دوسری طرف سڑکوں کی تعمیر کے ادارے ہیں ۔ سڑکوں کی استرکاری کرتے ہوئے ہوئے پرانی سڑک کو بحال کرنے کے بجائے اس کے اوپر ایک مزید تہہ چڑھا دیتے ہیں۔ اس طرح تہہ پہ تہہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں سڑکوں پر۔ اور اس سے ملحقہ رہائشی علاقے ان سڑکوں سے نیچے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سڑک اوپر ہو رہی ہے اور رہائشی علاقے نیچے ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے سے نکاسی آب کا سسٹم مزید متاثر ہو رہا ہے ۔ یوں ایک دن اور دو دن کی بارش میں میں نہ صرف ندی نالے ابلتے ہیں بلکہ اچھے اچھے علاقوں کے گھروں میں گھٹنوں تک پانی جمع ہو جاتا ہے جس کا بین ثبوت حالیہ بارش میں ہونے والی والی ایک مشہور علاقے کے گھر کی ویڈیو ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے ۔ کس طرح اچھے علاقے بھی "حکومتی اعلی کارکردگی" سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ساری وزارت، حکمرانی کو زعم ایک طرف رہ جائے گا جب خلق خدا اٹھ کھڑی ہوگی ۔ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھو

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین