کراچی (نیوز ڈیسک) رواں ماہ اس سال کی سب سے بڑی یہ خبر سامنے آئی کہ ایران اور چین کے درمیان 400؍ ارب ڈالرز کا معاہدہ ہوا ہے اور یہ معاہدہ بھارت کیلئے زبردست نقصان کا باعث بنا کیونکہ اس معاہدے سے نہ صرف بھارت کی پاکستان کیخلاف سازشوں کا دروازہ بند ہو گیا بلکہ ایران نے چاہ بہار بندرگاہ پر ریلوے ٹریک کے معاہدے سے بھی بھارت کو علیحدہ کر دیا۔
اس معاہدے کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ صورتحال صرف بھارت کیلئے ہی نہیں بلکہ امریکا کیلئے بھی ہزیمت کا باعث بن کر سامنے آئی ہے اور اب ان خیالات کی توثیق ہو رہی ہے کہ ایران پر اس طرح پابندیوں، دھمکیوں اور دبائو کی پالیسی فضول ہے۔
ایران اور چین کے درمیان اتنے بڑے معاہدے میں تجارت، معیشت، سیاست ، ثقافت اور سلامتی کے شعبہ جات شامل ہیں جن کی مالیت 400؍ ارب ڈالرز ہے۔ چین کی توجہ ایران کے زمینی راستوں پر ہے جن سے وہ اپنی ضروریات کا تیل حاصل کرے گا۔ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ امکانات پیدا ہوگئے ہیں کہ جو چائنیز کمپنیاں ایران کے ساتھ تجارت کریں گی انہیں بھی امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیویارک ٹائمز کے رابطہ کرنے پر امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ امریکا ایسی چائنیز کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے جو ایران کی مدد کریں گی۔
تاہم، سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کب تک ہوگا کیونکہ برسوں سے پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور پہلے امریکا ایران کو جوہری ٹیکنالوجی کے حصول سے نہ روک پایا اور اب بھی ایران بدستور اپنے موقف پر قائم ہے۔
امریکا کی اس ناکام حکمت عملی اور پالیسی کا نتیجہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ نہ صرف امریکا اپنے مقصد میں ناکام ہوگیا ہے بلکہ اس نے اپنے دشمنوں کو ہاتھ ملانے پر مجبور کر دیا ہے۔
امریکی سخت موقف اختیار کرنا چاہتے ہیں، سخت بننا چاہتے ہیں، یہ وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے امریکا کو بحیثیت قوم بین الاقوامی سطح پر اب تک فائدہ پہنچایا ہے لیکن سخت بننا حکمت عملی نہیں بلکہ بہت سارے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہونا چاہئے۔
9/11 کے بعد سے امریکا نے خصوصی طور پر فوجی طاقت پر انحصار کیا لیکن بدقسمتی سے امریکا نے اپنے دیگر رویوں کو چھوڑ کر سخت بننے کو ترجیح دی اور بالآخر یہی حکمت عملی اختیار کی لیکن اب کئی برسوں اور دہائیوں بعد امریکا کے مقاصد اور اہداف پورے ہوتے نظر نہیں آ رہے اور سلامتی کی صورتحال بگڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔