• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

لاہور کے تمام قدیم گرجا گھر ہم نے دیکھے ہیں بلکہ کبھی یہاں اینگلو انڈین کو بھی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ رومن کیتھولک میں جب بشپ کا انتقال ہوتا ہے تو اس کو چرچ ہی میں دفن کر دیاجاتاہے۔ لاہور کے رومن کیتھولک گرجا گھروں میں کئی بشپ دفن ہیں۔ لاہور میں سات سے زائد گرجا گھر ایک سو سے ڈیڑھ سو برس تک قدیم ہیں۔ قارئین کے لئے یہ بات اور خصوصاً راوین کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گی کہ گورنمنٹ کالج لاہور (جس کا نام کسی ناسمجھ پرنسپل نے صرف خود وائس چانسلر بننے کے چکر میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کر دیا،جو عجیب نام ہے۔اسی پرنسپل نے کالج میں پنج پیر کے مزاروں کو بھی مسمار کر کے ایک عمارت کھڑی کر دی تھی۔ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں میں مزار ہیں۔ اس پر آئندہ بات کریں گے) جن میں ایک چبیل یعنی چھوٹا گرجا گھر تھا۔ اس چبیل میں عیسائی عبادت بھی کرتے تھے۔ بعد میں اس کو پھانسی گھاٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایک پھانسی گھاٹ ڈی سی آفس کے قریب ایک علیحدہ عمارت میں بھی تھا۔ 1980ء میں کچھ لوگوں نے یہ آواز اٹھائی تھی کہ اس پھانسی گھاٹ کو گرا دیا جائے۔ بہرحال قیام پاکستان کے بعد جیمنیزیم بنا دیا گیا۔ ہم جب گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو یہاں لڑکے جمناسٹک کیا کرتے تھے اور ایک طویل مدت تک یہ تاریخی عمارت جیمنیزیم کے طور پر استعمال ہوتی رہی البتہ اس تاریخی عمارت کی دیکھ بھال اس انداز میں نہیں کی گئی جس انداز میں کی جانی چاہئے تھی۔ آج کل اس تاریخی اور خوبصورت عمارت میں چینی زبان سکھانے کا سینٹر ہے۔ یہ جمناسٹک ڈی پی چوہدری شریف، چوہدری شوکت اور بٹ صاحب کرایا کرتے تھے۔

گورنمنٹ کالج لاہور بڑا تاریخی تعلیمی ادارہ ہے۔ اس نے بڑی شاندار روایات کو جنم دیا۔اس کالج کی ہر روایت کو تباہ کر دیا گیا۔ لاہور کینٹ کا سینٹ میری مگینینی اورسینٹ جوزف چرچ، نولکھا چرچ، مریم بے داغ کا چرچ، نابھہ روڈ کا سینٹ اینڈریوز اور نیلا گنبد کا ہولی ٹرنینٹی چرچ ڈیڑھ سو برس قدیم ہیں۔ پرانے تار گھر میں بھی کبھی ایک چرچ تھا۔ ٹیلی گراف کی تاریخی عمارت کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی لاہور میں کئی چرچ ہیں جو ایک سو برس قدیم ہیں۔ لاہور کے بشپ ڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ 32سال تک بشپ رہے اور ڈین شاہد معراج کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی 32برس سے کیتھڈرل چرچ سے وابستہ ہیں۔

لاہور میں کرسمس کیک اور ایسٹر بند (جن پر کراس کا نشان ہوتا تھا) کا آغاز محکم دین بیکری نے کیا تھا۔ کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کا شاید ہی کوئی پرنسپل، استاد، میو اسپتال کا کوئی ڈاکٹر اور اسٹوڈنٹ ہو جس نے محکم دین کے کیک، بسکٹ اور Pattiesنہ کھائے ہوں۔ اپنے وقت کی بڑی لذیذ چیزیں بنانے والی بیکری تھی۔ ایک نگینہ بیکری بھی تھی۔ بھاٹی گیٹ کی انگلش بیکری، عمر بیکری اور پائلٹ بیکری بھی کبھی بڑی مشہور تھیں۔ اس دور میں بعض بیکری والوں کے سیل مین سائیکل پر ایک بڑا سا بکس رکھ کر گھر گھر کیک، پیسٹری، ڈبل روٹی، مکھن، رس، کیک رس، بسکٹ اور Patties سپلائی کیا کرتے تھے۔ کیا لاہور تھا، سبزی بھی گھروں میں تانگہ /ریڑھی پر رکھ کر لو گ لایا کرتے تھے ۔

لاہور میں مختلف جگہوں پر(Milestone) ہوا کرتے تھے جن پر شہر کے مختلف علاقوں اور مختلف شہروں کی نشاندہی کی ہوتی تھی۔ لاہور کے آخری میل اسٹون کی تصویر ہم نے خود بنائی تھی۔ یہ میل اسٹون میکلوڈ روڈ پر قصر سینما (نیا نام مون لائٹ) کے سامنے سڑک کے درمیان میں نصب تھا جس کا کچھ حصہ زمین میں دھنس چکا تھا۔ اس پر لکھا تھا لاہور 1اور دہلی 311اس کے دائیں بائیں اور پشت پر بھی کسی شہر کا نام تھا۔ یہ پتھر کسی نے غائب کر دیا کیونکہ اورنج ٹرین کی وجہ سے اس پتھر پر بہت مٹی پڑی ہوئی تھی۔ اس اورنج ٹرین نے لاہور کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ ایک میل اسٹون پر انگلش میں لندن 6372میل، گوجرانوالہ بائیں طرف، ملتان دائیں طرف ، ایک میل اسٹون کینٹ میں بھی تھا جس پر سری نگر تک کا فاصلہ درج تھا۔ یہ سب کچھ ہم نے ضائع کر دیا جس طرح لاہور کینٹ کے گرجا چوک میں ایک یادگار نصب تھی جو ضیاء الحق کی حکومت نے وہاں سے اتار دی۔ اس پر ہم بات نہیں کر سکتے۔ اگلے روز ہم ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت یا یوں کہئے کہ پرانے ریڈیو پاکستان سے گزر رہے تھے، بڑا دکھ ہوا۔ کبھی ہم بھی بچپن میں یہاں بچوں کے پروگرام ہونہار میں حصہ لینے آتے تھے یہ کوٹھی فضل حسین کی تھی۔ اس کوٹھی کے لال رنگ کے فرش ہوا کرتے تھے جن پر اکثر بچے پھسل جاتے تھے۔ اس لال فرش پر سفید چادریں ڈلی ہوتی تھیں۔ سامنے ایک مائیکرو فون ہوتا تھا۔ یہ وہ تاریخی عمارت ہے اور یہاںوہ تاریخی اسٹوڈیو تھا جس سے 13اگست کو رات 12بجے اور 14اگست 1947ء کے انتہائی ابتدائی لمحات میں مصطفیٰ علی ہمدانی (معروف انائونسر ریڈیو پاکستان) نے یہ تاریخی اعلان کیا۔ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ کاش ہم اس مائیک کو، اس اسٹوڈیو کو ،وہاں کے فرنیچر کو محفوظ کر لیتے جہاں سے قیام پاکستان کا پہلا اعلان ہوا اور پھر پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کا اعلان ہوا۔ ریڈیو پاکستان کے پاس آوازوں کا ایک وسیع ذخیرہ ہے۔ موسیقی کے آلات اور نایاب ریکارڈز کا ایک خزانہ ہے جو آہستہ آہستہ خراب ہو رہا ہے۔ ہمیں پتا نہیں آخر ریڈیو پاکستان نے یہ خزانہ کیوں چھپا رکھا ہے ، اس کو نوجوان نسل کو کیوں نہیں سنواتے۔ (جاری ہے) 

تازہ ترین