• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیجیےجناب! آگئی برسات۔۔۔ لیکن ذرا ٹھہر ئیے ! برسات کے آنے کی اطلاع ہم کیوں دیں؟ برسات تو اپنی آمد کا اعلان خود کردیتی ہے۔ یہی تو وہ موسم ہوتا ہے جو اس شان سے آتا ہے کہ لگتا ہےکسی بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔پہلے نقیب آوازیں لگائے گا۔پھر توپوں کی سلامی ہوگی تب کہیں جاکربادشاہ سلامت جلوہ گر ہوں گے۔ ہم دیگر ممالک کی برسات کی بات نہیں کرتے، البتہ اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی برسات کا ایک با ضابطہ کردار ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ کہ ہماری برسات بہت دلیر اور بہادر ہوتی ہے کیوں کہ وہ ’’دشمن‘‘ پر غفلت میں حملہ نہیں کرتی بلکہ اسے پہلے سے آگاہ کردیتی ہے :’’ لو ہم آرہے ہیں ، میدان چھوڑ کر بھاگ جاؤ‘‘۔ دوم ،یہ کہ ہماری برسات کافی پڑھی لکھی ہوتی ہے کیوں کہ یہ اخبار میں موسم کا حال پڑھتی ہے اور پھر ترد ید ی بیان کے طورپر برستی ہے۔ 

بھلا بتائیے ایسا با ضابطہ کر د ا ر کون سے موسم کا ہوتاہے؟دیگر مو سمو ں کا یہ حال ہوتا ہے کہ چوری چھپے آتےہیں اورچلے جاتے ہیں ۔ایسے موسموں کو لے کر کیا کیجئے گا۔ سچّا موسم تو وہی ہوتا ہے جو آئے تو بس سارے ماحول پر چھا جائے۔ وہ اُمڈ اُمڈ کر اور گرج گرج کر برسنے والی بدلیاں اور کڑک کڑک کر چمکنے والی بجلیاں جب آتی ہیں تو سارے ماحول پر چھا جاتی ہیں اور اس کے بعدبالخصوص کراچی اوربالعموم پورے پاکستان میں جو’’ ماحول‘‘بنتا ہے وہ کئی ہفتوں تک پورے منظر نامے پر چھایا رہتا ہے۔

برسات،اُمّیدوں یا نا اہلی کا موسم؟

برسات کا موسم بڑی اُمیدوں والا موسم ہوتا ہے۔ چناں چہ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ یہ موسم ہمارے دل میں سیکڑوں اُمیدیں پیدا کردیتاہے۔ ہمارے دل پر ہی کیا موقوف ہے ، برسات کی آمد سے پہلے خود دھرتی کے سینے میں بھی بہت سی اُمیدیں چھپی ہوتی ہیں جو بعد میں لاکھوں ننّھے مُنّے ہرے بھرے پودوں کی شکل میں دھرتی کے سینہ سے اُبل پڑتی ہیں۔دنیا بھر کے لوگوں کی طرح پہلے کراچی والے بھی برسات کا شدّت سے انتظارکر تے تھے، کیوں کہ کبھی یہاں بارش کے قطرے خوشیوں کا پیغا م لاتے تھے،لیکن اب بارش خوف،اندیشوں اور مشکلا ت کے سندیسے لاتی ہے ۔ حال ہی میں ہونے والی بارش کی مثال لے لیں ۔ تھوڑی سی برسات نے صاحبانِ ا قتدار اور سرکاری حکّام کے تمام دعوےغلط ثابت کر د یے، شہر کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا ا ورچند قیمتی جانیں چلی گئیں۔پچھلے کئی برسوں کی طرح اس برس بھی ساون کے ساتھ کر ا چی میںانتظامی نااہلی کا موسم بھی شروع ہوچکاہے اور اربوں روپےکے منصوبوں کا پول کھل گیا ہے۔

بارش کی چندبوندیںپڑتےہی کچھ عرصہ قبل ہی تعمیرہونے والی سڑکیں ٹوٹنا شروع ہوگئیں ۔ دو سری طرف حکومتِ سندھ اور میئر کراچی کے دعوے اور کام، سب سامنے آگئے۔کراچی میں بارش کے گرم مرطوب موسم میں مادہ مچھروں کے انڈوںسے لاروے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔بارش کا موسم مچھروں کی افزائشِ نسل کا موسم ہوتا ہے۔

ماہرینِ طب کاکہناہے کہ بارشوں کے موسم میں مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں جن کے کاٹنے سے بیماریاں پھلتی ہیں۔لیکن شہر میں مز ید با ر شوں اور ڈینگی اور چکن گونیا کی بیماری پھیلنےکے خطرات کے پیش ِنظرمتعلقہ سرکاری اداروںنے تاحال کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔نہ ہی نالوں اور گلیوں میں صفائی ستھرائی کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔

ہر برس وہ ہی رونا

قیامِ پاکستان کوتہتّربرس بیت گئے۔لیکن آج بھی برسات میںہماری بیش تر گلیاں اورسڑکیں ندی، نالوںکا منظر پیش کرتی ہیں۔وہی دکانوں، مکانوں میں گھستا پانی، وہی لوگوں کا واویلا، وہی سرکاری عمّال کا پمپ خراب ہونے کا رونا اور وہی حکومتیں۔ صرف چہرے بدلے،کر د ا ر نہیں بدل سکا۔ ہر سال موسم ِبرسات شر و ع ہونےسے پہلے حکومت کی جانب سےسے یہ ہی بیان جاری ہوتاہے کہ برسات کے لیے تمام احتیاطی ا قد ا مات اٹھالیے گئے ہیں۔مگر جیسے ہی دو بوند پانی برسا، سڑکیں اور گلیاں پانی سے بھر گئیں اور ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں ۔یوں لوگوں کو پانی میں بسے ’’وینس‘‘ شہر کی ’’سیر‘‘ کا موقع مفت میں مل جاتا ہے۔ 

لیکن یہاں مشکل یہ ہے کہ اس ندی نما گلی یا سڑک سے گزرنے کے لیے ہما ر ے عوام کے پاس کشتی نہیں بلکہ کار، موٹر سائیکل یا رکشہ ہوتاہے جو عین درمیان میں پہنچ کر رُک جاتاہے اور سواری کو پائنچے چڑھاکر دھکّا لگانے کے لیےپانی میں اترناپڑتا ہے۔ ایسے میں اس کا پارہ 100 ڈگری عبورکر رہا ہوتاہےکہ اچانک ایک طرف سے کسی وزیر ، ایم این اے یا ایم پی اے کی لینڈ کروزر برآمد ہوتی ہے اور اس پر پانی اچھالتی گزر جاتی ہے ۔ اور غریب پہلے اس نمائندے کی شان میں چند الفاظ کہتا ہے پھر اپنے آپ کو کوستا ہے اور پھر حکومت کی ’’تعریف میں‘‘ چند الفاظ کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتا ہے۔

ہم نے کیا سیکھا؟

یہاں سوال یہ ہے کہ ان تہتّر برسوںمیں ہر سال بر سات ہوئی ،لیکن ہم نے اس سے سیکھا کیا ؟ دوسری جا نب اس عرصے میں سائنس اتنی ترقّی کرچکی ہے کہ یہ معلوم کرناکہ اس برس کتنی بارش ہو گی، مشکل نہیں رہا ہے۔ سائنس کی ترقّی کی وجہ سے اب ترقّی یافتہ ممالک میں اس ضمن میں90 فی صدپیش گوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔ 

ایسے میں حفاظتی اقدامات کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میںاب بہت سی قدرتی آفات میں نقصانات کو کم سے کم کرنا انسان کے لیے ممکن ہوگیا ہے۔مثال کے طور پر اگردس سال کا ریکا ر ڈ سامنے رکھ لیا جائے کہ ان برسوں میںکہاں، کتنے ملی میٹر بارش ہوئی تو آئندہ برس ہونے والی بارش کی مقدار کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ 

اسی طرح اگر یہ دیکھ لیا جائے کہ دس برسوں میں بارشوں سے کون کون سے علاقے زیر آ ب آئے اور ان علاقوں میں نکاسیِ آب کا نظام کیسا تھا توخامیوں پر قابو پاکر اس نظام کو بہتر بنایاجا سکتا ہے ۔ اس ضمن میںایک علاقے کو ماڈل کے طورپرلے لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اس علاقے میں گزشتہ برسوں میں برسات میں کتنے فیٹ پانی کھڑا ہوا اور اس کی نکاسی کیسے اور کتنی دیر میں کی گئی۔ فرض کرلیں کہ بارشوں میں اس علاقے میں دس ملین کیوبک فیٹ پانی برسا تھا،لیکن نکاسی صرف پانچ ملین کیوبک فیٹ پانی کی ہوئی تھی تو اس کا مطلب یہ ہواکہ وہاں کے نکاسیِ آب کے نظام میں پانچ ملین کیوبک فیٹ کی کمی ہے۔

برسات کے بعد بیماریوں کا خوف

اطلاعات کے مطابق کراچی کے مختلف علاقوں میں برسات کا پانی کھڑا ہےجس کی وجہ سے مختلف بیماریوں کی تعداد میں واضح ا ضا فہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ماہرینِ طب کے مطابق برسات کا مرطوب اور نمی والا موسم ملیریا، ڈینگی اور دیگر وبائی امراض پھیلانے والے جراثیم کی افزائش کے لیے بہت سازگار ہوتا ہے۔ ان کے بہ قول ایسے میں صاف پانی کی عدم دست یابی لوگوں کوپیٹ کے امراض میں بھی مبتلا کر دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق شہرکے بہت سے علاقوں میں سیوریج اور واٹر سپلائی کا بوسیدہ نظام بھی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔

اس وقت کراچی کے مختلف علاقوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ٹا ئیفا ئیڈ، ملیریا، اسہال، وائرل فلو اور بد ہضمی کے ساتھ جِلد کی بیماریوں کے شکار مریض بھی شفاخانوں کا رخ کررہے ہیں۔ موسم برسات میں بیماریوں سے بچنے کے لیے احتیا طی تدابیر کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس موسم میں ارد گرد کا ماحول صاف رکھ کر اور صاف پانی پینے سےانسان کئی بیماریوں سے بچ سکتا ہے۔ ان کے مطابق ویسے بالعموم اور برسات میں بالخصوص ہاتھ اچھی طرح دھو کر، گھر کا صاف اور تازہ پکا ہوا کھانا کھانا چاہیے اور لوڈ شیڈنگ کے دوران فریج میں رکھے ہوئے باسی کھانے یا بازار کی بنی ہوئی اشیائے خورونوش استعمال کرنےسے گر یزکرناچاہیے۔ خاص طور پر بازار میں کاٹ کر کھلے بیچے جانے والے پھل نہیں کھانے چاہییں۔ برسات میں گھروں میں مچھر ماراسپرے کرو ا نا چاہیے، صبح اور شام کے اوقات میں مچھر بھگانے والا لوشن استعمال کرنا چاہیے اور گھروں کے آس پاس بھی پانی نہیں کھڑے ہونے دینا چاہیے۔ 

اس کے علاوہ اس موسم میں اگر کھلا دودھ بھی استعمال نہ کیا جائے تو مناسب ہوگا۔ماہرین کے مطابق صرف صاف پانی پینے سے انسان60 سے 70 فی صد بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔ برساتی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ادویات معالج کے مشورے سے ہی استعمال کی جانی چاہییں کیوں کہ ان ادویات کے اثرات بعض حسا س افرادپر خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔

ماضی کا شان دار کراچی اور آج کا کچراچی کراچی جو کسی زمانے میں روشنیوں کے شہرکے طور پرجانا جاتا تھا آج اس کی پہچان کچرا اور گندگی بن گئی ہے ۔اس شہر میں کوئی اختیارات مانگ رہا ہے تو کوئی اپنے را ج کی نوید سنارہا ہے۔ لیکن ڈھیروں کے حساب سے سڑکوں پر پڑا ہوا کچرا کسی کو نظر نہیں آرہا ہے ۔ شہرمیں جگہ جگہ مو جو د کچرے کے ڈھیراور سیوریج کاپانی رنگ لے آیا ہے۔

شہر میں جگہ جگہ سیوریج اوربرسات کا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سےمچھروں کی بہتات ہوگئی ہے ،لیکن متعلقہ اداروں کی جانب سے تاحال کوئی اسپرے نہیں کیا گیا ہےجس کی وجہ سے صورتِ حال مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔شہری حلقوں کو اس ضمن میںخاصی تشویش ہے۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں ،انہیں ایک جانب کرونا کا ڈر ہے اور دوسری جانب ملیریا،ٹائیفائیڈ،ڈینگی اور چکن گونیا کا خطرہ ہے۔دوسری جانب شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومتِ سندھ اور بلدیاتی ادارے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور شہر کے نالے صفائی نہ ہونے کی وجہ سے اُبل رہے ہیں ۔

اگر ان کی صفائی نہیں کی گئی تومزید بارشوں سے کراچی کے شہریوں کی تکالیف میں مزید اضافہ ہو جا ئے گا-ان حلقوں کا کہنا ہے کہ شہر کے سات بڑے نالے برسات کے پانی کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہے ہیں۔ گجر نالہ ،منظور کالونی،کلری،پچر نالےاور نہر خیام کی فوری صفائی کی ضرورت ہے- شہر کے اندرونی نالوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری بلدیاتی اداروں کی ہے ۔اگر ان کی صفائی کا خیال نہیں رکھا گیا تو مزید بارش کے نتیجے میںشہر کے باسیوں کو مزید عذاب جھیلنا پڑے گا۔

کراچی کے ایک مخلص خدمت گار کا تذکرہ

کبھی کراچی میںروشنی کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپ اور گیس بتیاں جلائی جاتیں تھیں۔یہ شہر حقیقتاً روشنی کا شہر اس وقت بنا جب ہرچند رائے وشن داس( 1911 تا 1921 ) کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے ۔ وہ 1911 میں کراچی میونسپلٹی کے پہلے مقامی صدر منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے کراچی کی ترقی کے لیے بہت کام کیاجس میں بجلی کی کمپنی کا قیام سب سے اہم تھا ۔ بجلی کی آمد نے کراچی کو جدید شہر بنا دیا۔ وہ نہ صرف ایک فعال سماجی رہنما تھے بلکہ نظریاتی سیاسی کارکن بھی تھے۔ 

سیٹھ ہر چند رائے نے کراچی میونسپلٹی کے صدر کی حیثیت سے اپنے دور میں کراچی میںبہت سے ترقیاتی کام کرائے۔ 1846 سے 1884تک کراچی میونسپلٹی میں افسروں اور اہل کاروں کا زور رہتا تھا اور اراکین بھی ایسے نام زد ہو کر آتے تھے جن پر اہل کاروں کا زور چلتا تھا۔یہ اراکین ہمیشہ افسروں کے کہنے پر عمل کرتے تھے ۔ 1885سےکرا چی میونسپلٹی میں نام زد اراکین کے علاوہ منتخب اراکین بھی آنے لگے۔ہرچند رائے کی ان تھک کوششوں سےکر ا چی میونسپلٹی ایک عوامی ادارہ بنا۔

کراچی میں 1896سے1897کے عرصے میں طاعون Plague کی وبا پھیلی تو اس وقت ہرچند رائے میونسپلٹی میں کونسلر تھے۔اس وباسے نمٹنے کے لیے انہوںنے ایک عارضی اسپتال قائم کیا جس کے انچارج ہرچند رائے اور ان کے کزن تھے ۔ ہرچند رائے نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔ اس دوران خالی گھر وں میں بعض افراد نے لوٹ مار کی تو فوج اور پولیس کے ساتھ مل کر ہر چند رائے نے ان گھروں کی حفاظت کے لیے نوجوانوں کے جتھے مقرّر کئے۔

شہر میں ہر چند رائے کے دور سے قبل سڑکیں کچی ہوتی تھیں۔ سڑکوں کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہر میں تارکول (ڈامر) سے بنائی جانے والی سڑکیں انہوں ہی نے متعارف کرائیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بھی۔ہر چند رائے کی کراچی کے لیے بہت زیادہ خدمات ہیں۔ انہوں نے لیاری ندی کا رُخ تبدیل کر کے کراچی والوں کو ایک بڑی مصیبت سے چھٹکارا دلایا۔

پہلے لیاری ندی شہر کے درمیان میں بہتی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کے سبب شہریوں کے لیے مصیبت اور آزار کا سبب بنتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے ملیریا کا بخار پھیل جاتا تھا۔اس مسئلے سے نمٹنے کےلیےسیٹھ ہرچند رائےنے انجینیئرز سے مشورے کے بعد ایک کارگر منصوبہ تیار کرایا ۔ منصوبے کے تحت لیاری ندی پر گاندھی باغ (کراچی کاچڑیا گھر)کے قر یب دھوبی گھاٹ کے مقام پر بند باندھا گیا اور پانی کے بہاؤ کا رُخ تبدیل کیا گیا۔ اس عمل کے نتیجے میں مزید زمین میسر ہوئی اور اور ایک اور کوارٹر وجود میں آیا۔ لوگوں کی رائے تھی کہ اس کوارٹر کوہر چند رائے کے نام سے منسو ب کردیاجائے۔ 

لیکن سیٹھ صاحب کا واضح موقف تھا کہ جب تک میونسپلٹی کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہےوہ اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چند رائے اپنے اصولوں کی کس حد تک پاس داری کرتے تھے۔ہرچند رائے نام و نمود کے سخت خلاف تھے۔ ان کے دیہانت کے بعد ان کی یاد میں 28فروری 1928 کو خالق دینا ہال میں عوامی جلسہ منعقد کیا گیاتھا۔ موتی رام ست رام داس کے مطابق اس جلسے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ آں جہانی کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے۔ 

اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔6 سال بعد 16 فروری 1934کو کراچی میونسپلٹی کمپاؤنڈمیں ان کے مجسمے کی تقر یب رونمائی منعقد کی گئی۔ ہرچند رائے کامجسمہ بنانے پر 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم کراچی کے شہریوں سے حاصل کی گئی تھی۔یہ مجسمہ مسٹر ٹام نے بنایا تھا ۔ ار ا کینِ بلدیاتِ کراچی نامی رسالے کے مدیر مناظر صدیقی لکھتے ہیں:’’آں جہانی ہرچند رائے وشن داس کے کراچی پر بڑے احسانات ہیں۔ 

ان کے کردار اور خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ان کا ایک مجسمہ نصب تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہٹا دیا گیا تھا‘‘۔مجسمہ ہٹانے کا معاملہ توکسی حد تک سمجھ میں آتا ہے، لیکن ان کے نام سے موسوم سڑک کا نام تبدیل کرکے اسے ایک دوسرے سربراہِ بلدیہ سے موسوم کر دینے کا جواز سمجھ میں نہیں آتا۔اگر صرف جناب صدیق وہاب کی خدمت کا اعتراف کرنا مقصود تھا تو ان کے نام سے کسی دوسری سڑک کو موسوم کیا جا سکتا تھا ۔ صدیق وہاب اور ہرچند رائے وشن داس، دونوں ہی بلدیہ کراچی کے سربراہ رہ چکے تھے۔یہ مجسمہ ہٹاکر پہلے میونسپلٹی کے گودام میں رکھا گیا تھا۔لیکن اب یہ مجسمہ مہٹہ پیلس میں موجود بتایا جا تا ہے ۔ تاہم اطلاع ہے کہ اس مجسمے کوکسی نے سرسے محروم کر دیا ہے۔

ٹھوس منصوبہ بندی ناگزیر ہوچکی

  اگلے مرحلے میں یہ سوچنا ہوگا کہ اس کمی کو دُورکیسےکیا جائے۔ چوںکہ نکاسیِ آب کے لئے خطیر رقم کی ضرورت پڑے گی، لہذا اس منصو بے پر مرحلہ وار کام کرنا پڑے گا۔ شہر کے ان علاقوں کو جو برسات میں زیرآب آ جاتے ہیں چار یا آٹھ حصوں میں تقسیم کریں اور ہر حصے میں نکاسیِ آب کا جامع او ر مربوط منصوبہ تشکیل دیا جائے ۔ 

اگر نکاسیِ کے نظام میں پچاس فی صد کی کمی ہوتو مستقبل کی ضرورت کے تحت اس میں پچاس فی صد نہیں بلکہ ستریا اسّی فی صدکا اضافہ کیا جا ئےتاکہ وہ نظام آئندہ کم از کم بیس برس تک علاقے کی ضرورت پو ر ی کرتا رہے اور اس پر مزید رقم خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔

اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو انگریز سرکار نے کر ا چی سمیت ہر شہر میں برساتی نالے بنائےتھے جنہیں ہمارے لوگوں نے گندے نالوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ نالے برسات کے پانی کا ریلابرداشت کرتے تھے اورپانی سڑکوں پر اکٹھا ہونےکے بجائے ان نالوں کے ذریعے شہر سے نکل جاتا تھا۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کسی حکومت نے نہ تو نئے نالے بنانے پر توجہ دی اور نہ ہی پرانے نالوں کو گہرا یا چوڑا کرنے کی ضرورت محسوس کی بلکہ ان نالوں کو مختصر کر دیا گیا اور بہت سی جگہوں پر انہیں اوپر سے بند کر دیا گیا۔ مزید یہ کہ ان کی مناسب صفائی ستھرائی کا انتظام نہیں کیا گیا۔

ان وجوہات کی بنا پر وہ برسات کاپانی لے جانے کے قابل نہیں رہے ۔اب ضروری ہے کہ حکومت شہر کےتمام زیرآب آنے والے علا قو ں میں اکٹھا ہونےوالےپانی کا ریکارڈ جمع کرے او ر اسی حساب سے وہاں نکاسیِ آب کانظام بنائے۔دو علیحدہ نظام بنانے ہوں گے اس ضمن میں ہمیں ایک بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا۔گند آب کی نکاسی کا نظام علیحدہ رکھنا ہوگا اور برساتی پانی کے لئے علیحدہ نظام بناناہوگا۔ ورنہ شہر اسی طرح ڈوبتے رہیں گے اور لوگوں کی املاک تباہ ہوتی رہیں گی۔ 

اس سارے عمل پر کافی لاگت آئے گی، لیکن مرحلہ واریہ منصوبے مکمل کیے جاسکتے ہیں۔ہمیں کل کے لیے سوچناچاہیے اور قلیل المیعادکے بجائے طویل المیعاد حکمتِ عملی ترتیب دینی چاہیےتاکہ ہم آنے والی نسلوں کواچھا پاکستان دے کر جا ئیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارےسیاست دا ںکہتےبہت کچھ ہیں، لیکن اسٹیج سے نیچے اترتے ہی سب کچھ بھول جاتے ہیں۔تاہم حکومت کے علاوہ لوگوں پر بھی یہ فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ اشیاء جن کی وجہ سے نکاسیِ آب کا نظام متاثرہوتا ہے، گٹر میں نہ پھینکیں تاکہ پانی کی کی روانی متاثر نہ ہو۔

تازہ ترین