• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کی قومی سیاست پر غالب سیاست دان عوام کی فلاح و بہبود ، ملک کے استحکام اور جمہوریت کے فروغ کے لیے جو کہتے ہیں وہ بہت پر کشش ہوتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے روایتی سیاست دان جوکہتے ہیں ، وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ بد ہی بد ہے ۔ وہ ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اربوں کے قرضے ہڑپ کر چکے، انہوں نے بڑی تعداد میں جعلی ڈگریاں بنوائیں ۔ ان کی اقربا پروری کی شرم ناک مثالیں قائم کیں۔ اثاثے لاکھوں کروڑوں میں ظاہر کرتے ہیں ان کا لائف سٹائل جمہوری دور میں بھی شاہانہ ہے۔ قومی سیاست پر ان کا جتنا غلبہ ہو تا ہے ، ملکی خزانہ اتنا ہی اجڑتا جاتا ہے۔ یہ سرمایہ پاکستان سے سمیٹتے ہیں اور سر مایہ کاری دیارغیرمیں کرتے ہیں ۔ انکے منشور عوام دوست ہو تے ہیں جبکہ پالیسیا ں اور اقداما ت عوام دشمن ۔ ایک صبح نو کا خواب دکھاتا ہے تو دوسرا ملک کو اندھیروں میں غرق کر دیتا ہے ۔ جیل اور جلاوطنی بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکی ۔ گویا قول و فعل کے تضاد کا جتنابڑا مظاہرہ پاکستان میں ہوتا ہے ، کوئی اور ملک ا س کو نہیں پہنچ سکتا۔ جہالت و غربت اور سماجی و اقتصادی پسماندگی میں تو کئی ممالک کی حالت ہم سے بھی بہت زیادہ گئی گزری ہے ، لیکن بات جتنی بھی کڑوی ہو، اسے مان ہی لینا چاہیے کہ منافقت میں ہم کنفرمڈ نمبر ون ہیں ۔ چلیں! یوں سمجھ لیں کہ ہم سے بھی بڑا منافق اس دنیا میں کوئی اور ہے ، لیکن وہ دنیا کے لیے ہی ایسا ہو گا ، اپنوں اور اپنے ہی ملک کے لیے یہ بڑا مقام بد ہمارا ہی نصیب کیوں بن گیا ؟ جبکہ ہماری چٹان جیسی مضبوط قیادت نے تاریخی منافقت کو شکست دے کر ہی پاکستان حاصل کیا تھا ۔ چھ عشروں تک عوام اور ملک کے ساتھ ، پاکستانی سیاست دانوں کے ابلاغ و اعمال کے اس اذیت ناک تضاد کا پس منظر لیے ، پاکستانی قوم ایک بار پھر 11مئی کواپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر نے والی ہے ۔ چونکہ اوپر کی سطح پر حکمرانوں اور بحیثیت مجموعی سیاست دانوں نے منافقت کے کلچر کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ، یہی رویہ عوامی سطح پر بھی سر ایت کر گیا ۔ نتیجتاً اب تک ہونیوالے انتخابات میں، منافقانہ سیاسی کلچر کی عکاسی بار بار ہو تی رہی ۔ بمشکل اتنی بیداری آئی یا پیش رفت ہوئی کہ متضاد رویے کی سیاسی طاقت ایک سے دو ہو گئیں ، پھر بار ی باری کا ایک سلسلہ ہے ۔ ”میری باری پھر تیری باری ، عوام کیلئے فقط خواری خواری“ہی ملک کا نظام قرار پایا اسی پر چلتے چلتے کوئی ورد ی اور بوٹوں والا آدھمکا ۔ اس نے بھی جو کہا وہ خوب کہا ، اور جو کیا وہ بس سوال ہی سوال ہیں۔ آج وہ پوری دنیا کے سامنے لاچارگی کی تصویر بنا کچہریاں بھگت رہا ہے ، اور این آر او زدہ ملک پر چھائے ہوئے ہیں ۔
اس مایوس کن پس منظر کے ساتھ، پاکستان آج ناگزیر تبدیلی کے عمل میں داخل ہو چکا ہے ۔ چیلنج یہ ہے کہ اس نازک ابتدائی مرحلے کی راہ درست متعین ہو، ہو گئی تو پاکستان تخیل کی حد تک اور دنیا میں بہت تیزی سے تبدیل ہو نے والا ملک بن جائے گا ۔ یہ جتنا تبدیل ہو گا ،تبدیلی کا ابتدائی مرحلہ اتنا ہی چیلنجنگ ہے ۔ غالب سیاستدانوں کے قو ل وفعل میں تبدیلی کی جھلک بھی نظر آنے لگی ہے ۔ عمران خان کا یہ بیان ایک خواب تھا کہ وہ پاکستان کے تازہ دم و تازہ ذہن ، اسٹیٹس کو سے بیزار نوجوانوں کو ملک کی قیادت میں نمایا ں شیئر دیں گے ۔ وہ قومی سیاست میں نوجوانوں پر زیادہ انحصار کر نے والے سیاستدان بن کر قومی سیاسی منظر پر با لآخر ایک نمایاں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ۔خوش کن امر یہ ہے کہ پارٹی کی تنظیم سازی کے سخت ترین مراحل سے گزرنے کے بعد انتخابی امیدواروں کی نامزدگی کا بڑا متحان آیا تو عمران خان اس میں بھی کامیاب ہوگئے۔ عمران نے 35سے40فیصد ٹکٹ نوجوانوں کو انتخابی امیدواربنانے کے لیے ان میں بانٹ دیئے ۔ پہلی مرتبہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی لاٹ قومی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اترنے کو ہے ۔ انتخابی مہم کے موقع پر عمران خان کے قریب ترین رشتہ داروں ( نیازی برادران )سے جو اختلاف ہوئے اوراس میں عمران خان نے تین مرتبہ انتخاب جیتنے والے انعام اللہ نیازی کو ان کے میانوالی کے روایتی حلقے سے ٹکٹ دینے سے معذوری ظاہر کر دی ۔ اگرچہ فریقین کے درمیان کچھ مشترکہ دوستوں کی یہ رائے بھی ہے کہ ابھی انعام اللہ کے پاس خود کو کلیئر کر نے کے لیے قانونی آپشنز موجود تھیں ۔ اس طرح عمران کا فیصلہ اصولاً درست نہیں اور جلد بازی کی غمازی کرتا ہے لیکن اس پس منظر میں بھی عمران خان کی نیک نیتی کا یہ پہلو تو ثابت ہوا کہ وہ اقربا پرور نہیں بلکہ اس پر ضرورت سے زیادہ محتاط ہے ۔ حالانکہ عمران خان کے اس اقدام سے وہ حفیظ اللہ نیازی جیسے پی ٹی آئی کی انتخابی مہم کے روح رواں کی خاموشی کے نقصان سے دوچار ہو گئے ۔اس کے علاوہ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے حالیہ دور کے دو وزیر اعظم آئینی طور پر نااہل ہو گئے ۔یہ ہے تبدیلی کا وہ عمل جس میں اسٹیٹس کو چٹختا نظر آ رہا ہے اور تب جبکہ یہ اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ اس انتہائی حالت کی جھلک الیکشن سے پہلے یوں واضح ہو گئی ایک کالم نگار نے عوام کو خواری سے دوچار رکھنے والے ”’بار ی باری اقتدار“کا نظام تشکیل دینے والی ہر دو جماعتوں کے سینیٹرز نے اپنی اپنی ترقیاتی گرانٹس مبینہ طور پر ( خیبر پختونخواکے صنعتی زون) میں ٹھیکیداروں کا کوئی گینگ ہے جو پاکستان کی سینٹ کے ارکان کو پیش کش کرتا ہے کہ وہ کمیشن لے کر اپنی ترقیاتی گرانٹس انہیں دے دیں ۔
واضح رہے کہ سینیٹرز اپنی ترقیاتی گرانٹس پاکستان میں کسی بھی جگہ عوامی مفاد کے پراجیکٹس میں خرچ کرسکتے ہیں ۔ متذکرہ انکشاف کے فالواپ میں یہ الزا م لگایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے پانچ سینیٹرز نے اپنی ترقیاتی گرانٹس مانسہرہ کے ”مخصوص حلقے “کے لیے دے دیں جہاں سے میاں نوازشریف کے قریبی عزیز امیدوار ہیں۔پیپلز پارٹی چکوال کی ایک سینیٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی ترقیاتی گرانٹ اس لیے لکی مروت کے ترقیاتی پراجیکٹس کے لیے دے دی کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا ۔آئین پاکستان کی روسے سینٹ پورے ریاستی ڈھانچے خصوصاً قانون سازی جیسے اہم ترین کام کے لیے بلند شعور رکھنے والے قومی اکابرین کا آئینی رہبر فورم ہے ۔
متذکرہ کالم میں یہ بھی کہا گیاہے کہ اسٹیٹ بنک کے گورنر کسی طور اب تک قر ضے معاف کروانے والوں کی مکمل فہرست جاری کر نے پر ہر گز آمادہ نہیں ۔ ایسا ہے تو ، اسٹیٹ بنک کا یہ رویہ عوامی مفادات کی اطلاعات تک عام شہری کی بلا روک ٹوک پہنچ کے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قانون کی عملداری اورRight to Knowکے خلاف مزاحمت ہے ، جسے پوری دنیا میں تسلیم کیا جا رہا ہے اور جس پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی قرارداد بھی منظور کر چکی ہے ۔ یوں اسٹیٹس کو کے انتہاپر پہنچنے اور اس کے چٹخنے ، دونوں کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے ۔ اہل نظر ا س مشکل مرحلے میں بر پا ہوتی تبدیلی کو یوں مینج کریں کہ ملک میں ”انتخاب بمطابق آئین “اور ”قانون کا اطلاق سب پر“کی اولین مطلوب قومی ضرورت کے پوری ہونا یقینی ہو جائے ۔ اس پر یقین رکھنے والے پاکستانی جو بھی ہیں ، آگے بڑھیں اور خود کو منظم بھی کہ ان کا مقابلہ اسٹیٹس کو کی انتہا پر پہنچی ان قوتوں سے ہے جو یہ نئی نسل میں یہ گمراہی پھیلا رہی ہیں کہ یہ قومی ضرورتیں محض خواب ہیں اور”زمینی حقائق“کا زہر ہی اصل حقیقت ہے۔
تازہ ترین