• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویرزمان خان، لندن
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے چند روز قبل ایک ٹی وی کو انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس ہمارے ساتھ یونہی موجود رہے گا، ہمیں اس کے ساتھ رہنے کا لائف اسٹائل اپنانا پڑے گا۔ ایسا ہی دیگر کئی سائنسدانوں اور سیاستدانوں نے بھی کہا ہےجبکہ دوسری طرف ایسی خبریں بھی آئے دن ملتی رہتی ہیں کہ ویکسین تیار ہوچکی ہے۔ کوئی کہتا ہے اس سال دسمبر میں آجائے گی اور کوئی کہتا ہے اگلے سال تک آئے گی۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار امیونٹی کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے۔ پہلے ایک تحقیق تھی کہ جسے ایک بار ہوجائے اسے دوبارہ نہیں ہوگا۔ پھر یہ نئی بات آئی کہ ایک بار ہونے کے بعد امیونٹی چند ماہ تک باقی رہتی ہے۔ حکمران کلاس میں ایک یہ بھی خیال پایا جاتا ہے کہ یہ اگر ایک دفعہ اس زمین پربسنے والے سب انسانوں کو ہوجائے تو اس وائرس سے جان چھوٹ جائے گی کیونکہ بہت سے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں نے ایسا بھی کہا ہے کہ آئندہ سال کے آخر تک اس دنیا میں رہنے والا کوئی شخص بھی ایسا نہیں بچے گا جسے ایک دفعہ کورونا وائرس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے بھی کنفیوژن موجود ہے۔ کبھی کہا جاتا تھا ماسک کی کوئی خاص افادیت نہیں اوراب ہر جگہ پر لازمی ہوگیا ہے۔ مجھے سارے بدلتی باتیں دیکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میںآرہی ہے کہ اس کووڈ 19کے مختلف ممالک پر مختلف اثرات نظر آئے ہیںاور وائرس کے کریکٹرز میںفرق ہے اور اس کے حتمی مزاج پر نتیجہ خیز مشاہدات Concludeنہیں ہوسکے۔ اس لئے مجھے ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کی اس بات میں وزن لگتا ہے کہ ہمیں اس کی کسی ویکسین کا منتظر نہیں رہنا چاہیے۔ بلکہ فاصلہ برقرار رکھنا، ماسک پہننا، سینیٹائزر استعمال کرتے رہنا جیسے اقدامات کو ساتھ لے کر ہی زندگی بسر کرنی ہے۔ گویا ہمارا لائف سٹائل بدل رہا ہے۔ جوں جوں یہ وائرس پرانا ہوتا جائے گا ہم سب انسان اس کے ساتھ رہنا سیکھتے جائیں گے۔ یہ کس قسم کا لائف سٹائل ہوگا۔ اس پر بات کرتے ہیں، جس طرح بار بار کئی ممالک میںاس کی لہر آرہی ہے، برطانیہ بھی وزیر اعظم بورس جانسن کے مطابق آئندہ دو ہفتوں میں پھر سے کووڈ19 کی لپیٹ میںآنے والا ہے۔ یہی باربار کا عمل ہی آہستہ آہستہ لوگوں کو نئے لائف سٹائل کی طرف لے جائے گا، وگرنہ ابھی تک تو ہماری کمیونٹی کے بہت سے افراد کووڈ 19کو سنجیدگی سے لینا اپنی ہتک محسوس کرتے رہے ہیں۔ بلکہ کئی جگہوں پر ماسک پہننےوالوں کا مذاق بھی بناتے ہیں جو کہ افسوس ناک ہے، ایسا میں نے خود چند محفلوں میں جاکر دیکھا ہے، جو لوگ اس بیماری کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں ان میںبھی شروع شروع میںتو ماسک پہننا اور ایک دوسرے کو دو میٹر کے فاصلے پر رہنا عجیب سے محسوس ہوتا تھا۔ اسٹوروں سے شاپنگ کرتے ہوئے فرلانگ، فرلانگ سے بھی طویل قطاریں دیکھ کر عجیب سا لگتا تھا لیکن اب معمول بنتا جارہا ہے۔ عام لوگوں کو ایک دوسرے سے دورکھڑے ہوکے با ت کرنے کی عادت ہوتی جارہی ہے۔ ہاتھ ملانا بھولتا جارہا ہے۔ گلے ملنا بہت کم ہوگیا ہے۔ بطور مہمان جانا یا مہمان بلانا کم ہوتا جارہا ہے۔بہت سے لوگ ایسے لائف سٹائل سے خوش بھی ہیں کہ جینا بھی اپنا اپنا اور مرنا بھی اپنا اپنا لیکن یہ سب کچھ ایک المیے سے کم نہیں۔ کیونکہ ہم اس سب کچھ کے پہلے سے عادی نہیں ہیں۔ بہت سے کاروبار جو پہلے دفاتر اور دکانوں سے چلتے تھے اب انہیں گھروں سے کام کرنے کا جو تجربہ ملا ہے۔ اس نے بڑی بڑی بلڈنگز اور دکانیں رکھنے کی ضرورت کو ختم کردیا ہے۔ جس کے لامحالہ پراپرٹی بزنس پر بہت سے منفی اثرات پڑنے جارہے ہیں۔ ٹیکنالوجی اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ بڑے بڑے کانفرنس ہال اب بے کار ہوگئے ہیں۔ ملازمین کی بڑی تعداد کو ہزاروں میل دور بیٹھ کر بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور ان سے بہتر نگرانی میں کام لیا جاسکتا ہے۔ جس سے صاف عیاں ہے کہ اب معاشی عمل کا بڑا حصہ ڈیجیٹل معیشت بننے جارہا ہے لیکن تبدیلی کا یہ عمل آسان انداز میںپرانے سٹائل میںچلتی معیشت کو نقصان کا شدید جھٹکا دیئے بغیر پورا نہیں ہوگا۔ اس ساری تبدیلی میں بےروزگاری کا ایک بڑا طوفان چھپا ہوا ہے۔ عالمی طور پر مندی کا بازار تیز ہونے کو ہے۔ فقط تجارتی ہی نہیں بلکہ ہر طرح کے اداروں کا انداز تبدیل ہونے جارہا ہے۔ عام طور پر ہوتا تھاکہ ایک معیشت بحران میں آئی تو بڑی معیشت یا ادارے مالی مدد کرکے اسے کھڑا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کووڈ19نے ہر ملک اور معیشت کو اپنی ہی راہ میںڈال دی ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسی مضبوط معیشتیں بھی نفسانفسی کے دورمیں ہیں۔ انہیں اپنی بقا کیلئے ہی بےشماروسائل کی ضرورت ہے۔ ایسے میںغریب معیشتیں بحران سے نمٹنے کیلئے خود انحصاری پر ہی اکتفا کریں گی۔ جو کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کیلئے اچھی مشق ہوگی۔ اس وقت آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی ادارے بھی جو کہ دنیا کی درجنوں معیشتوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے تھے اور معیشتوں کو جکڑ لیتے تھے اب خود بحران میںجانے والے ہیںکیونکہ ان کے ڈونرز شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ اب ایک نئی ترقیاتی وژن جس میں انسانی حقوق ، جنسی برابری اور ماحولیاتی صحت مندی فوکس کے نکات ہوںگے۔اجتماعی بقا جس کا اہم نقطہ ہے۔ صحت کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری درکار ہوگی جس کیلئے Multilateralism کا نظریہ اپنا کردارادا کرےگا۔ بہت سے آبادی کے حصے کو جبری بے روزگار رکھنے والا سرمایہ دارانہ نظام کا ستون توڑنا پڑےگا۔ کمپنیوں کو اپنے ورکرز کی بہت ساری اضافی ذمہ داریاں اٹھانا پڑیں گی۔ وگرنہ شاید ورک فورس دستیاب ہی نہ ہو۔ اس طرح کچھ تبدیلیاں تو حالات خود بخود برپا کردیں گےاور بقیہ کواچھی اور مثبت وژن کے ساتھ شعوری پلاننگ کے ذریعے بہتر شکل دینا ہوگی جس جانب ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے۔
تازہ ترین