• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بکرا اور عوام

بکرا ایک عرصے سے اپنی زبان میں یہ بتلا رہا ہے کہ پاکستان کے عوام اور بکرے میں کافی مماثلت پیدا کر دی گئی ہے، اسے بھی سبز گھاس دکھا کر چھری پھیر دی جاتی ہے۔ عوام کو بھی سبز باغ دکھا کر ذبح کیا جاتا ہے، وہ یہ بھی باور کراتا ہے کہ ہم تو عید کے عید مگر عوام ہر روز قتل ہوتے ہیں اور بقول سلیمان شاہ (ٹی وی فنکار) ’’وَل وَل قتل کریندا‘‘ ہم معذرت کے ساتھ کوئی زیادہ شوخا اور عیدو قسم کا کالم تو لکھ نہیں سکتے کہ یہ وکھری ٹائپ کی قربانی کی عید ہے اس لئے کالم بھی کسی حد تک قربانی کی بھینٹ چڑھا ہوا محسوس ہو گا، ایک مرتبہ پھر "Sorry"آج عید قربان ہے، اور ہائے میں تیرے قربان اے حکمران میری جان، ہر شے کے نرخ اور وہ خود بانس پر چڑھی ہوئی ہے، کم از کم ان بےگناہوں کو تو عید پر رہائی دے دی جاتی جو جرم کئے بغیر پابند سلاسل ہیں، بہرحال ہمارے حال کو دیکھ کر ہم نہیں ہماری کیا مجال بکرے کہہ رہے ہیں؎

ایسے دستور کو صبح بےنور کو میں نہیں مانتا

بکرے کو یہ شکایت ہے کہ اب تو کورونا کے باعث ان سے وہ چند روزہ جھوٹا پیار بھی نہیں کیا گیا، مائیں بچوں سے کہتی ہیں بکرے کو ہاتھ نہیں لگانا بس چھری لگانی ہے، حالانکہ اس بکرے کو کبھی بڑی عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اب بکرا آن لائن بھی دستیاب ہے، بکنگ کرائیں اور ایک لفافے میں بند بکرا وصول کر لیں، ہمارے ہاں یہ بھی اب دستور بن گیا ہے کہ قربانی کے وقت اشیاء کے نرخ بڑھا دیتے ہیں اور ایک ہفتے میں سال بھر کی کمائی کر لیتے ہیں پہلے یہ محاورہ عام تھا کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی اب عوام کی ماں حکومت خیر ہی خیر مناتی بلکہ خوب گلچھرے اڑاتی ہے، اور آخر میں عرض ہے؎

یہ عید قرباں ہے یا شام غریباں ہے

کہے دیتی ہے شوخی حکمراں کی

٭٭٭٭

اور شہر ڈوب گیا

اقوامِ عالم فوج کو سرحدوں پر طلب کرتی ہے ہم خود ساختہ سیلاب روکنے کے لئے بھی فوج طلب کرتے ہیں، ہماری فوج اللہ رکھے ہر محاذ پر طلب کر کے اس سے وہ کام لیا جاتا ہے جو ذمہ داران اور متعلقہ محکموں نے پیدا کر رکھا ہوتا ہے، ہماری ہر ادا نرالی ہے، عوام نے بھی ہر 5سال بعد نئے قصابوں سے قربانی کرانے کی ٹھان لی ہے، پرانے تو اب کسی حد تک اٹھتے جاتے ہیں نئے بھی ان کی سنت کو زندہ رکھنے کے لئے آب و دوام کی تلاش میں رہتے ہیں، اپوزیشن ہو یا برسراقتدار حکمران سب اپوزیشن ہی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، افلاس اور غریب کے مال کو زندہ درگور کرنے کے خلاف کوئی اپوزیشن نہیں، ڈبل اپوزیشن نے ٹربل ’’اَنی‘‘ مچا رکھی ہے، بہرحال بات ہے کراچی کے پانی میں ڈوبنے کی ایک زمانہ گزر گیا کہ کراچی سطح آب پر نہیں آیا، اس شہر چراغاں کے حکمرانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ آپ کیوں اپنی بے رحم ادائوں پر غور نہیں کرتے، کبھی کراچی آ کر یوں لگتا تھا کسی ترقی یافتہ ملک آ گئے ہیں اب یہ حال ہے کہ کراچی بھی کراچی کو چھوڑ رہا ہے، شہر پُر آشوب شہر پُر آب بن چکا ہے، پرانی میں سے جو نئی قیادت نکلی وہ بھی ایک تبدیلی وزیر کے ساتھ مناظرے میں مصروف ہے، ایک سندھی ہے ایک پٹھان ہائے رے پاکستان اب کون تیرے قربان؟! روشنیوں میں ڈوبا ہوا شہر سیلاب میں ڈوب گیا اور حکومت صوبائی ہو یا وفاقی ساحل پر بیٹھی ہے چراغاں کئے ہوئے، فوج نہ ہوتی تو یہ ملک ویسے بھی ڈوب چکا ہوتا، محکموں سے اپنے کام نکالنے والے کب اُن سے، ان کا کام لے سکتے ہیں۔ ڈوبے ہوئے شہر میں عید کا منظر کیا ہو گا یہ قیامت مورخ کیسے لکھے گا، کوئی کراچی بچائو مہم بھی ہونی چاہئے۔ 

٭٭٭٭

ات خدا دا وَیر

....Oمیر شکیل الرحمٰن، عید بھی جیل میں منائیں گے خطا اتنی کہ کوئی خطا نہیں کی، یہاں تک کہ بے خطائی کا یہ اتائی مقدمہ بھی ہنوز شروع نہیں ہوا آخر ان سے اتنا ویر کیوں؟ آخر ان سے کیا چاہا جا رہا ہے اس پر ہمیں فارسی کا ایک شعر یاد آیا با ترجمہ ملاحظہ ہو؎

گناہ گرچہ نبود اختیارِ ما حافظؔ

تو دَر طریق ادب گو گناہِ من است

(گناہ اگرچہ میرے اختیار میں نہ تھا پھر بھی مودبانہ کہہ دو ہاں میں نے گناہ کیا ہے)

رعایت نہیں تیری سلاخوں سے رہائی مانگی تھی

اپنے پاس ہی رکھ میں نے حکمرانی تو نہیں مانگی تھی

....Oعید کی خوشی منانے کے لئے قوم کو اتنی مہنگائی دی گئی کہ غریب آدمی کو دیکھ کر آس پاس کے بکرے بھی رو پڑے، آج بکرا اور قربانی دینے والا ایک گھاٹ پر بھوکے جی پیاسے کھڑے ہیں، ہے کوئی ان کی فریاد رسی کرنے والا؟

....O میئر کراچی، خبر ہے کہ وزیراعظم نے اب تک کراچی والوں کو صرف سہانے خواب دکھائے،

یہ تحریک انصاف کے ساتھ اتنا انصاف تو کریں کہ ان کے سونامی باکس میں سہانے خواب ہی تو ہیں، نہ جانے تم کب سمجھو گے۔

تازہ ترین