• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

داغ نے کہا تھا؎

لیجئے سنیے اب افسانہ فرقت مجھ سے

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا

آپ کی بزم میں سب کچھ ہے مگر داغ نہیں

مجھ کو وہ خانہ خراب آج بہت یاد آیا

دنیا کے بہت کم شہر لاہور جیسی تاریخ، تہذیب، ثقافت، روایات اور تاریخی عمارتیں رکھتے ہوں گے۔ پچھلے کالم میں ریڈیو پاکستان کے حوالے سے بات چیت ہو رہی تھی اس کو آگے بڑھاتے ہیں۔ جو لوگ کبھی ریڈیو پاکستان کے اسٹوڈیو میں کسی پروگرام کے لئے گئے ہوں تو انہیں یاد ہو گا کہ اسٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی ایک مخصوص خوشبو اور شدید ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا۔ ہم نے کئی برس قمر قریشی پروڈیوسر کے ساتھ یونیورسٹی میگزین پروگرام کیاہے۔ ہمیں کبھی بیس روپے تو کبھی پچاس روپے کا چیک ملتا تھا اس زمانے میں ہمارا بینک اکائونٹ نہیں تھا، چیک اوپن کرانا پڑتا تھا تاکہ نقد پیسے مل جائیں۔ کیا دور تھا جس عمارت سے یعنی پرانے ریڈیو پاکستان سے قیام پاکستان کا تاریخی اعلان ہوا اس عمارت کو محفوظ کرنا چاہئے تھا۔ کیا تلخ حقیقت ہے کہ اس کے پاس سے گزرنے والے کسی کو بھی نہیں پتہ کہ یہاں کبھی ریڈیو پاکستان تھا اور یہیں سے قیام پاکستان کا تاریخی اعلان ہوا تھا۔ ارے اللہ کے بندو یہاں کوئی تختی، کوئی بورڈ، کوئی پتھر ہی لگا دیں جس سے پتا چل سکے کہ یہ وہ تاریخی عمارت جہاں سے قیامِ پاکستان کا اعلان ہوا تھا۔ آج اس عمارت کے باہر لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے مظاہرے کر رہے ہیں۔ بچوں کا پروگرام ہونہار ایک طویل عرصے تک نشر ہوتا رہا۔ اس کی آپا شمیم (موہنی حمید) ابو الحسن تقی (بھائی جان) لاہور کے ہزاروں ان بچوں کو یاد ہوگا جو اب پوتے، پوتیوں، نواسے اور نواسیوں والے ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ہر اتوار کو بچے ریڈیو سیٹ کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ اب تو ریڈیو پاکستان والوں کے پاس بھی وہ ریڈیو سیٹ، گرامافون، ریڈیو گرام اور ریکارڈ پلیئر نہیں رہے۔ دنیا میں لوگ پرانی چیزوں کو سنبھال کر اور محفوظ کر کے رکھتے ہیں۔ واشنگٹن کے جان ٹائون میں ٹرام کی پٹریاں آج تک اسی طرح موجود ہیں۔ ان کو نہیں اکھاڑا گیا اور اپنے کراچی میں ٹرام چلتی تھی کسی بدبخت حکومت نے نا صرف ٹرام بند کرا دی بلکہ ٹرام اور اس کی پٹریاں تک فروخت کر دیں۔ میری عمر کے اور مجھ سے بڑی عمر کےلوگ ریڈیو پاکستان کا جمہور دی آواز، گیتوں بھری کہانی، تلقین شاہ، ڈرامہ اور گانوں کا فرمائشی پروگرام کبھی بھول سکتے ہیں؟ 1965کی پاک بھارت جنگ میں ریڈیو پاکستان کا کردار ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ جمہور دی آواز کیا پروگرام ہوا کرتا تھا۔ لاہور کے باسی مرزا سلطان بیگ (نظام دین) سلطان کھوسٹ (نور دین) سید رشید حبیبی سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان (قائم دین) عبدالحمید مسافر (چوہدری صاحب) اور خالد عباس ڈار (ٹینا) کی باتیں سننے کے لئے سرشام ریڈیو کے پاس جمع ہو جاتے تھے۔ ان میں سے جو کردار زندہ ہیں۔ اللہ انہیں لمبی عمر صحت کے ساتھ عطا فرمائے (آمین) آج ریڈیو پاکستان کے اے ایم کی نشریات اپنے ہی شہر میں بھی نہیں سنی جاتیں۔ اس کا موہلنوال کا ٹرانسمیٹر جس نے 65کی جنگ میں نشریات لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا تباہی کے دھانے پر ہے۔

لاہور کے دروازوں میں بھاٹی دروازہ وہ واحد ہے جس نے بے شمار نامور لوگ پیدا کئے۔ بھاٹی گیٹ اور شہر کے دیگر دروازوں کے اندر تھڑے (مکانوں اور دکانوں کے) سیاست اور گپ شپ کے لئے بڑے مشہور تھے۔ اس کو تھڑا سیاست بھی کہتے تھے۔ انہی تھڑوں پر انتخابات میں کس کو جتوانا ہے کس کو ہرانا کے فیصلے ہوا کرتے تھے۔ اب بھی یہ تھڑے انہی کاموں کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر وہ پہلے والی بات نہیں۔ ان تھڑوں پر رات گئے محفلیں جاری رہتی تھیں۔ ہم بھی ان میں کبھی شرکت کرتے تھے۔بھاٹی گیٹ ہی میں پاکستان کی ایک اہم شخصیت کے دادا بھی تھڑا سیاست میں بڑے سرگرم ہوا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کسی نے بھاٹی دروازہ یا کسی اور دروازے سے شہرت اور مقام پایا وہ اس علاقے کو ہی چھوڑ گیا۔ لاہور کے تیرہ دروازوں میں سے بھاٹی دروازہ سب سے اہم رہا۔ اس نے کئی نامور لوگ پیدا کئے مثلاً حکیم احمد شجاع، گلو کار محمد رفیع، فقیر خاندان، علامہ اقبالؒ (یہاں پر حنیف منزل میں رہائش پذیر رہے) علامہ اقبال بھاٹی گیٹ میں تین مختلف جگہوں پر رہائش پذیر رہے۔ ڈاکٹر بشریٰ متین لاہور کالج کی آخری پرنسپل اور لاہور کالج ویمن یونیورسٹی کی پہلی وائس چانسلر جنہوں نے صرف 33برس کی عمر میں لندن سے پی ایچ ڈی کیمسٹری میں کی۔ مسز شاہدہ سلطان اور بشریٰ متین یہ بھاٹی گیٹ کی دو پہلی طالبات تھیں جنہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ایس سی کیمسٹری میں لڑکیوں کے پہلے بیج میں داخلہ لیا اور صدر ایوب خان سے گورنمنٹ کالج لاہور کے سو سالہ جشن کے موقع پرہونے والے کانووکیشن 1964میں رول آف آنر حاصل کیا۔یہ دونوں طالبات برقع پہن کر پڑھنے جایا کرتی تھیں۔ بھاٹی گیٹ سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور ان کے بھائی نامور فزیشن ڈاکٹر ساجد نثار کا بھی تعلق رہا ہے۔ اے آر کارداد (فلم میکر) ایم اسماعیل (اداکار) معروف کاسمیٹک سرجن پروفیسر فرید احمد خاں، معروف ماہر امراض معدہ جگر پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب شاعر مشرق علامہ اقبالؒ ایک عرصہ تک بازار حکیماں میں میاں عید محمد کے مکان میں مقیم رہے۔ پھر بھاٹی گیٹ کے ہی ایک نامور سپوت رانا محمد سلطان پہلے پاکستانی تھے جن کو امریکہ کی STAFORD کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ا سکالر شپ پر 1960میں داخلہ ملا۔ انہیں پنجاب کا بابائے مائننگ کہا جاتا ہے اور وہ یو ای ٹی میں بھی مائننگ کی پہلی کلاس کے طالب علم تھے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین