ابا…ابا…اماں… اما ں…صوبہ سندھ کے پسماندہ ضلع سانگھڑ سے تعلق رکھنے والی آٹھ سالہ تہمینہ کی کربناک آواز فضا کو چیرتی ہوئی آسمان سے ٹکرا رہی تھی۔اُس کے خون آلود لباس اور زخمی چہرے سے دکھ و الم عیاں تھا وہ بار بار اپنی والدہ اور بھائی کو پکار تی مگر اُس کی صداؤں کا جواب نہیں مل رہا تھا اُس کی آہیں خاک و خون سے لبریز ماحول میں گم ہو گئی تھیں۔اُس کے والدین اورآٹھ دیگر عزیز و اقرباء گلشن اقبال لاہور بم دھماکہ میں جام شہادت نوش کرچکے تھے۔ ملک اور انسانیت کے دشمنوں کی دہشت گردی نے 75سے زائد افرادکو لقمہ اجل بنایا اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میںاکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ مسلمانوں کے ساتھ مسیحی بھائیوں نے بھی اس حادثہ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
گلشن اقبال قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا تھا، آٹھ سالہ تہمینہ اوراس کا چار سالہ بھائی شہباز حادثے میں بچ گئے تھے مگر چند ہی لمحوں میں اُن کی ہنستی بستی دنیا اُجڑ گئی تھی اور انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ اب انہیں باقی عمر یتیم کے طور پر گزارانا ہوگی،دونوں اِس سے بے خبر تھے ،بہن زخمی بھائی کو بانہوں میں اٹھائے ہوئے حواس باختہ مدد کیلئے اِدھر اُدھر پکار رہی تھی۔ یہ دونوں بہن بھائی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک شادی میں شرکت کیلئے لاہور آئے تھے،شادی کی خوشیاں دیکھنے اور منانے کے بعد تفریح کیلئے گلشن اقبال چلے گئے اور پھرسب کچھ گم ہوگیا،ان کی دنیا ہی بدل گئی دھماکہ کے چند ہی لمحوں بعد ہلالِ احمر کے رضاکاروں نے انہیں جناح ہسپتال لاہور کے ایمرجنسی وارڈ میں منتقل کیا۔جناح ہسپتال کے ڈاکٹر، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف نے بہترین طبی امداد فراہم کی۔ حتیٰ کہ زخمیوں کو علاج کے ساتھ ساتھ خون بھی عطیہ کیا۔آئیے آج اِن بہادرڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو سلام پیش کریںجنہوں نے علاج، قربانی اور خدمت کی لازوال داستان رقم کی۔
چار سالہ شہباز اور اُس کی زخمی بہن تہمینہ کی جان اللہ کے کرم اور ڈاکٹروں کی محنت سے بچ تو گئی مگر ان کی دنیا بکھر گئی۔سب سے بڑا مسئلہ ان بچوںکی شناخت اور ان کے عزیز و اقرباء سے ملاپ کا تھا۔ہلالِ احمر کے شعبہ Restoring Family Links،جو حادثات، آفات اور مشکلات کے دوران بچھڑے ہوئے اور گمشدہ افراد کو ملاتا ہے، دھماکے کے فوراً بعد اس شعبہ کی منیجر اور اُن کی ٹیم نے اپنے کام کا آغاز کیا اور چند ہی لمحوں میں اپنے قواعد و ضوابط اور طریقہ کار کے مطابق بچھڑے ہوئے بچوں اور عورتوں کو اپنے اہل خانہ سے ملانے کیلئے جدوجہد کا آغازکردیا۔ اس ٹیم کا کام دشوار تھا مگر ہمت حوصلے اور محنت کے نتیجے میں انہیں کامیابی ملی ۔اس ٹیم نے جرأت کے ساتھ بچھڑے ہوئے بے ہو ش افراد، شدید زخمی خواتین و حضرات کی دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں اپنے اہل خانہ سے ملانے کیلئے بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔زخمیوں اور شہیدوں کی اطلاع بہم فراہم کی۔ ہلال احمر کی اسی ٹیم نے زخمی تہمینہ اور شہباز کی نانی کو تلاش کیا اور انہیں ان بچوں کی اطلاع فراہم کی۔ سندھ کایہ غریب خاندان اپنے عزیزوں کے بچھڑ جانے کی خبر سن کر دل گیر اور افسردہ تھا مگر ان دونوں بچوں کے بچنے اور پھر مل جانے کی خبر سن کروہ مطمئن ہوگیا اور خداکے حضور شکر بجا لایا۔
لاہور کے اس المناک حادثے میں ہلالِ احمر کی ٹیم ڈاکٹرز، نرسز، اور پیرا میڈیکل کی ٹیم چھ ایمبولینسز اور پچاس والینٹئرز کے ہمراہ چند ہی لمحوں میںجائے حادثہ پر پہنچ گئی تھی۔میڈیکل ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر نادیہ اوران کے ساتھیوں نے جاں بحق ہونے والے افراد اور زخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا۔ لاہور کے جناح ہسپتال اور شیخ زید میں مقامی ڈاکٹروں کے ہمراہ زخمیوں کو علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی۔ہلالِ احمر نے دونوں ہسپتالوں میں رجسٹریشن ڈیسک قائم کیے تاکہ جاں بحق اور بچھڑ جانے والے افراد کی تفصیلات فراہم کی جاسکیں۔ہلالِ احمر کی کوششوں اور اپیل پر سینکڑوں رضاکار ان خون کاعطیہ دینے کیلئے ہسپتالوں میں پہنچ گئے اور کسی بھی مرحلے پر خون کی کمی نہ ہونے دی گئی۔ ہلالِ احمر انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC)کے تعاون سے پاکستان اور بیرون پاکستان گمشدہ اور بچھڑے افراد کو ملانے کیلئے ملک گیر تحریک کا آغاز بھی کرچکی ہے۔ ہلالِ احمر اور آئی سی آر سی ایک نئی سہولت لاسٹ ہیلپ لائن 1030 (Lost Helpline)کاآغاز بھی ہو چکا ہے جس کے تحت مختلف ہسپتالوں ، شعبہ حادثات اور دیگر مقامات پر مراکز قائم کیے ہیں تاکہ گمشدہ اور بچھڑے افراد کا ملاپ کیا جاسکے۔لاہور بم دھما کے کے بعد ہلالِ احمرکے ڈاکٹرز، سٹاف اور رضاکاروںنے بلامعاوضہ گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں ان خاموش سپاہیوں کی سرپرستی کریں اور انہیں بھی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔
(صاحبِ تحریر چیئرمین ہلالِ احمر پاکستان ہیں)