• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمانڈو بننے کے شوق میں جنرل (ر) پرویز مشرف بری طرح ٹریپ ہو گئے ہیں۔ ان کی جان کو کتنا سخت اور سنجیدہ خطرہ ہے اور ان کے دشمن کتنے زیادہ ہیں، اب انہیں اندازہ ہو گیا ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں علم نہیں تھا کہ خطرات کتنے بڑے اور خوفناک ہیں۔حالانکہ ان کے چار سال سے زائد عرصہ کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آنے سے قبل ہی بہت سے باخبر لوگوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ ان کی وطن واپسی کا وقت بالکل غلط ہے اور انہیں فی الوقت ملک سے باہر ہی رہنا چاہئے مگر پرویز مشرف پر بہادر بننے کا خبط سوار رہا۔ صدر اور آرمی چیف ہوتے ہوئے ہر سرکاری چیز آپ کے کنٹرول میں ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ایسی شخصیات اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہو جاتی ہیں جیسے یہ کہ وہ بہت مقبول ہیں، عوام کی اکثریت ان سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور وہ پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں مگر جونہی اقتدار ہاتھ سے نکلتا ہے تو چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ موصوف بھی اس خام خیالی میں مبتلا رہے کہ وہ جب وطن واپس لوٹیں گے تو عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ان کے استقبال کیلئے موجود ہو گا مگر ان کا یہ خواب اس وقت چکنا چور ہو گیا جب وہ پاکستان لوٹے۔ اب ان کی مشکلات لگاتار بڑھ رہی ہیں جن میں آئندہ دنوں میں مزید اضافہ ہو گا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ بہت جلد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں۔
جب سے پرویز مشرف واپس پاکستان آئے ہیں وہ گھر میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ سیکورٹی کے بہت ہی جامع حصار میں اپنی رہائش گاہ سے صرف اس وقت باہر آتے ہیں جب انہیں کسی عدالت میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ ابھی تو قانون کے مطابق ان کی عبوری ضمانت میں توسیع ہو رہی ہے مگر جلد ہی وہ وقت بھی آسکتا ہے، جب یہ سلسلہ ختم ہو جائے اور انہیں فوجداری مقدمات میں تفتیش میں شامل ہونا پڑے اور ان کی گرفتاری بھی عمل میں آ جائے۔ اس کے بعد سزا کا مرحلہ بھی آسکتا ہے۔ وہ جب سے پاکستان آئے سیکورٹی اداروں اور قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جونہی ان کی سیکورٹی میں کمی آئے گی وہ بہت مشکل میں آجائیں گے۔ ملک سے باہر ہوتے ہوئے انہیں کم از کم یہ آزادی تو حاصل تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں جا سکیں مگر اپنے ملک میں انہیں یہ سہولت میسر نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کب تک سیکورٹی ادارے اور قومی خزانہ ان کے بوجھ کو اٹھا سکے گا یقیناً بہت زیادہ دیر تک نہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ انہیں جلد ہی ”مشورہ“ جس کے ماننے سے وہ انکاری نہیں ہو سکتے دیا جائے گا کہ بہتر ہے وہ پاکستان سے چلے جائیں ورنہ ان کی سیکورٹی میں کافی کمی کی جا سکتی ہے یقیناً نواب اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمات جن میں پرویزمشرف کا بھی ٹرائل مختلف مراحل میں ہے، بہت ہی سنجیدہ ہیں جو انہیں کئی سالوں الجھائے رہیں گے مگر غداری کا مقدمہ جس کیلئے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا گیا ہے بھی کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ عبوری وفاقی حکومت غداری کا مقدمہ درج کرنے میں لیت و لال سے کام لے رہی ہے مگر آئندہ حکومت شاید ایسا نہ کرے۔ ایک بات جو پرویز مشرف کیلئے شاید کچھ اطمینان کا باعث ہو وہ ہے ان کے سب سے بڑے مخالف نوازشریف اور ان کی جماعت کی خاموشی۔ جب سے پرویزمشرف پاکستان آئے ہیں اس جماعت کے اہم رہنماؤں نے ان پر اس طرح کے تند و تیز حملے نہیں کئے ہیں جو وہ ان کی ملک سے غیر موجودگی کے دوران کرتے رہے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ان کی کچھ بیرون ممالک جن میں سعودی عرب اور برطانیہ بھی شامل ہیں کو یقین دہانی ہے کہ وہ سابق صدر پر ہاتھ ”ہولا“ رکھیں گے مگر سیاسی حالات ایسے ہیں کہ شاید نوازشریف کو یہ پالیسی تبدیل کرنی پڑے۔ مزید یہ کہ وہ عدالتی فیصلے جو پرویزمشرف کے خلاف ہوئے ہیں یا ہوں گے پر عملدرآمد بھی کرنا لازمی ہو گا کیونکہ وہ کہتے رہے ہیں کہ وہ عدالتی احکامات کے پابند ہیں۔ سپریم کورٹ پہلے ہی اپنے31 جولائی 2009ء کے فیصلے میں پرویزمشرف کو آئین توڑنے کا مرتکب قرار دے چکی ہے ۔ یہ فیصلہ سابق صدر کے 3 نومبر 2007ء کے اقدامات کے بارے میں تھا جس میں انہوں نے بہت سے ججوں کو اپنے گھروں میں نظر بند کیا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کیا تھا۔ اب جو کارروائی عدالت عظمیٰ میں ہو رہی ہے اور وہ اس فیصلے پر مکمل عملدرآمد کیلئے ہے۔ اس فیصلے کے نفاذ کی بات صرف پرویزمشرف کی وطن واپسی کی وجہ سے چھڑی ہے۔ سابق صدر انہی ججوں سے انصاف مانگ رہے ہیں جنہیں انہوں نے نظر بند کیا تھا اور برطرف کیا تھا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے آپ کو اس بنچ سے جو غداری کے مقدمے کے اندراج پر سماعت کر رہا ہے سے علیحدہ کرکے بہت اچھا کیا کیونکہ وہی سابق صدر کے اصل اور پہلے ”شکار“ تھے جن کی وجہ سے بہت سے غیر آئینی اقدامات کئے گئے ہیں۔ بالآخر پرویزمشرف کو اقتدار سے بھی اسی وجہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔
پرویز مشرف پاکستان واپس آئے تھے 11 مئی کے عام انتخابات لڑنے۔ حالانکہ معمولی سیاسی سوجھ بوجھ والا شخص بھی جانتا تھا کہ وہ الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دیئے جائیں گے کیونکہ ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے اس لحاظ سے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے ان کے خلاف موجود ہیں اور ملک میں ان کے بارے میں ماحول انتہائی معاندانہ ہے مگر وہ اب بھی سمجھتے ہیں کہ وہ بہت سے لوگوں کے لئے قابل قبول اور بڑی مقبول شخصیت ہیں۔ ان کی آل پاکستان مسلم لیگ بھی تانگہ نہیں صرف کوچوان پارٹی ہے جس میں صرف ایک ہی شخص اسے چلا رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے 313/امیدوار انتخابات میں کھڑے کئے ہیں۔ کون ہیں یہ حضرات صرف وہی جانتے ہیں باقی کسی کو علم نہیں۔ جتنی بار بھی پرویزمشرف اپنے گھر سے کسی عدالت میں پیشی کیلئے نکلے ہیں ان کے حمایتی نظر نہیں آئے جہاں کوئی اکا دکا سامنے آیا اس بے چارے کی پٹائی ہو گئی۔ وہ خود تو مشکل میں پھنسے ہی ہوئے ہیں اپنے حمایتیوں کیلئے بھی عذاب بن گئے ہیں۔ دوسرے بے شمار مخالفین کے علاوہ وکلاء برادری بھی ان سے سخت نفرت کرتی ہے اور جہاں بھی اسے موقع ملتا ہے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرتی ہے۔ ظاہر ہے عدالتوں میں جہاں پرویزمشرف پیش ہوتے ہیں سب سے زیادہ تعداد وکلاء کی ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک بنا بنایا جلوس ان کے خلاف نعرہ بازی کیلئے موجود ہوتا ہے۔ سابق صدر کو سمجھنا چاہئے کہ ان کا سب سے اچھا وقت صرف وہ تھا جب وہ اقتدار میں تھے۔ اس کے بعد ان کیلئے کچھ نہیں۔ بہتر ہے کہ وہ گوشہ نشین ہو جائیں ورنہ جہاں بھی جائیں گے رگڑا کھاتے رہیں گے۔ منت سماجت کر کے اگر وہ کسی طرح ملک سے باہر چلے جائیں تو یہ ان کیلئے بہترین ہو گا۔ انہیں چاہئے کہ وہ سیکورٹی اداروں اور ملکی خزانے کا کچھ خیال کریں۔
تازہ ترین