• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرفان جاوید ممتاز و معروف ادیب، افسانہ نگار، محقّق ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے برصغیر کی نام ور شخصیات پر اُن کےسوانحی خاکے ’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ بعدازاں، ان خاکوں کے علاوہ کچھ دیگر خاکوں پر مشتمل اُن کی دو کُتب ’’دروازے‘‘ اور ’’سُرخاب‘‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آئیں اور ایسی مقبول ہوئیں کہ پھر اُن کے کئی ایڈیشن شائع کیے گئے۔

گزشتہ چند برسوں سے علمی وفکری موضوعات میں عرفان جاوید کی جُست جو اور فکروتحقیق کا حاصل، آئینہ تمثال مضامین کا مجموعہ ’’عجائب خانہ‘‘ ہے۔ یہ دنیا حیرت انگیز مظاہر و مناظر، موجودات و خیالات کا عجائب خانہ ہی تو ہے۔ سو، اس سلسلے کے کچھ منتخب مضامین اِس یقین سے آپ کی نذر کیے گئے کہ کئی اعتبار سے اپنی نوعیت کی یہ منفرد تحریریں یقیناً معلومات میں اضافے اور ذہنی تربیت کا سبب بنیں گی۔

عرفان جاوید کا مضمون ’’زندگی کی گود سے…‘‘عجائب خانہ سلسلے کی آخری کڑی، آپ کے لیے ایک سوغات ہے، اس میں مختلف لوگوں نے اپنی زندگیوں سےجو سبق سیکھے، اُنھیں اپنےمطالعے، مشاہدے اور فکر میں سجاکر دِل چسپ و لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔گویا خردافروزحکایات، ذاتی مشاہدات، فکر انگیز قصّوں اور واقعات کو ایک دل کش و دلآویز لڑی میں پرو دیا گیا ہے۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ مضمون بھی قارئینِ جنگ کے ہاں سندِ قبولیت پاکر معروف و مقبول ہوگا۔

(نرجس ملک، ایڈیٹر’’سنڈے میگزین‘‘)

گلابی جاڑے کی ایک صبح ہم ایدھی صاحب کے سامنے بیٹھے تھے۔ ایدھی ویلیج کے آنگن میں نرم گرم دھوپ اُتر رہی تھی اور ایدھی صاحب معمولی خنک ہَوا میں لہراتی اپنی سفید داڑھی اور دھیمی مُسکراہٹ کے ساتھ ہمارے سوالات کے مختصر جوابات دے رہے تھے۔ اُن کے ایک جواب نے ہمیں دم بخود کردیا اور ہم میں سے بیش تر شرکا اپنی بغلیں جھانکنے لگے۔ یہ دس برس اُدھر کا واقعہ ہے کہ کراچی کے قومی سطح کے تربیتی ادارے میں مختلف سرکاری شعبوں اوراداروں کے ملازمین چہارماہی تربیتی کورس میں شریک تھے۔ شرکا میں انتظامیہ، پولیس، محصولات، ڈاک خانہ، اکاؤنٹس، ریلوے جیسے اداروں کے ملازمین شامل تھے۔ تربیت کے دوران مختلف اداروں، یونی ورسٹیوں، سفارت خانوں اور متنّوع شعبہ جات کے بہترین دماغوں کو لیکچر کے لیے بلایا جاتا اور چنیدہ اداروں کا دورہ بھی کروایا جاتا۔ اُنھی دوروں میں سے ایک دورہ ایدھی ویلیج کا بھی تھا۔ 

ایدھی ویلیج عبدالستار ایدھی صاحب کا ایک ہی مقام پر سب سے جامع منصوبہ تھا۔ یہ کراچی سے باہرسُپرہائی وے پر واقع ہے۔ وہاں ایک وسیع و عریض احاطے میں مختلف گوشے معذوروں، بیواؤں، پنگھوڑا بچّوں، یتیموں، لاوارثوں، نحیف بوڑھوں، بیماروں وغیرہ کے لیے مختص تھے۔ اِدھر لاوارث ماں کو چمچ سے یخنی پلائی جارہی تھی، تو اُدھر پنگھوڑے میں بے آسرا چھوڑا گیا بیٹا کتاب کھولے سبق پڑھ رہا تھا، ایک ہال سے منتظر نگاہ بزرگ ہمیں دیکھ رہے تھے، تو دوسرے ہال سے نیم دیوانوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اور وہ تمام بچّے بھی موجود تھےکہ جن کی ولدیت کے خانے میں ایدھی صاحب نے اپنا نام بطور والد درج کروارکھا تھا۔احاطے کا دورہ مکمل کرکے ہم اُس کے بیچ بنےصحن میں آگئے۔ وہاں ایدھی صاحب قرونِ وسطیٰ کے کسی بزرگ کی طرح بیٹھے تھے۔ لاچار اور دُکھی انسانیت کی حالتِ زار اور ایدھی صاحب جیسے فرشتہ صفت انسان کی نیکی و جست جُو دیکھ کر بیش تر شرکا کے دل نرم پڑگئے اور آنکھیں بھرآئیں۔ 

سوالات وجوابات کا سلسلہ چل نکلا۔ آخر میں چند شرکا نے ایدھی صاحب سے ایک درخواست کی۔ انھوں نے ایدھی صاحب سے کہا کہ اپنے دلی سکون کے حصول کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ اُنھیں اجازت دی جائے کہ وہ اپنے اپنے گھروں یا دفاترکے قریب واقع ایدھی سینٹرز میں ہفتے میں چندگھنٹوں کے لیے خدمات سرانجام دے دیا کریں۔ اِس سے انھیں دلی اطمینان حاصل ہوگا اور دُکھی انسانیت کی خدمت بھی ہوجائے گی۔ ایدھی صاحب نے خاموشی سے سب کی درخواست سُنی۔ جب شرکا خاموش ہوگئے تو ایدھی صاحب نے سب پر ایک گہری بھرپور نگاہ ڈالی اور بولے ’’آپ سب سرکاری ملازمین ہیں۔ دُکھی انسانیت خود چل کر آپ کے دفاتر میں آتی ہے۔ آپ کو ہم دردی سے ان کے مسائل حل اور ان کے دُکھ دُور کرنے چاہییں۔ اگر آپ اپنے دفاتر کو ایدھی سینٹر بنالیں تو آپ کو کسی بھی ایدھی سینٹر جانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ 

ایدھی صاحب نے سادہ اورمختصر الفاظ میں ایک چشم کُشا حقیقت بیان کردی تھی۔ اسی سے ملتی جلتی بات ایک مرتبہ خیبرپختون خوا کے سابق آئی جی پولیس، ناصر درانی نے ریٹائرمنٹ کے وقت الوداعی گفت گو میں کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس مختلف بااثرلوگ اپنے کاموں کے لیے سفارشیں لے کرآتے ہیں۔ اُن لوگوں کے پاس اعلیٰ حلقوں کی سفارشی پرچیاں ہوتی ہیں۔ انھوں نے نصیحت کی کہ سب سے پہلے ان لوگوں کو توجّہ دی جائے، جن کے پاس کوئی پرچی نہیں ہوتی۔ کیوں کہ جس کے پاس کوئی پرچی نہیں ہوتی، اس کے پاس ’’اللہ کی پرچی‘‘ ہوتی ہے۔ یقیناً اللہ کی پرچی کے سامنے باقی سب پرچیاں ہیچ ہیں۔

مختلف دانش وَروں، رہنماؤں، اساتذہ اور عام لوگوں نے اپنی زندگیوں سےجو کچھ سیکھا، وہ بحیثیتِ مجموعی یازندگی کے چند گوشوں کے حوالے سےواقعات، قصّوں، اقوال اورخود نوشتی مضامین وغیرہ کی صُورت بیان کیا، مگر مَیں نے ذاتی طور پر زندگی کے مشاہدے، تجربے اور فکر سے جو کچھ حاصل کیااورسیکھا، اُسےدرسی انداز اور نصیحتوں کی صُورت بیان کرکے قاری کے لیے کوئی دشواری یا مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ سو، فائدے اور دل چسپی کےسامان کےپیشِ نظر اپنے مطالعے، جستجو سےحاصل کردہ قصّوں، اقوال، واقعات، حکایات، مشاہدات وتجربات اور تجزئیات سے عام فہم انداز میں یہ ایک مضمون ترتیب دیاہے۔

خوش وَنت سنگھ بھارتی ادیب اور صحافی تھے۔ وہ ایک بھرپور زندگی گزار کر ننانوے برس کی عُمر میں فوت ہوئے۔ اُن کا کمال آخرِ عُمرتک تحریر وتالیف میں مشغول رہ کر فعال زندگی گزارنا تھا۔ وہ اپنے آبائی قصبے ہڈالی، خوشاب پاکستان سے ایسے عشق میں مبتلا تھے کہ بعد از مرگ یہیں اُن کی راکھ بکھیری گئی۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کے حامی اوراُردو کے عاشق رہے۔ انھوں نے اپنی کتاب "The lessons of My Life"(میری زندگی کے اسباق) میں اپنی زندگی سے حاصل کردہ نتائج کو پابند ِالفاظ کیا۔ وہ طویل، صحت مند اور خوش گوار زندگی گزارنے کے بارہ نکات بیان کرتے ہیں۔ ٭طویل عُمر میں موروثیت اورجینیات کا اہم کردار ہے۔ جن لوگوں کے والدین لمبی عُمریں پاتے ہیں عموماً وہ بھی لمبی عُمر پاتے ہیں۔ یہ وہ تحفہ ہے، جو والدین اپنے جین کے ذریعے اولاد کو دیتے ہیں۔ ٭ورزش زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر یہ ورزش کھیلوں کی صُورت ہو تو اور بھی بہتر ہے کہ اس طرح دل چسپی برقرار رہتی ہے۔ اگر کوئی ورزش نہ کرپائے تو اُسے باقاعدگی سے پورے بدن کی مالش کروانی چاہیے تاکہ سر تا پیر تیز تردورانِ خون برقرار رہے۔ ٭بسیار خوری نقصان دہ ہے۔ کھانے پینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ علاوہ ازیں ایک ٹائم ٹیبل اور روٹین برقرار رکھنا ضروری ہے۔

دن کا آغاز تازہ پھلوں کے رَس سے کرنا چاہیے۔ امرود کا رَس بہترین مشروب ہے۔ رات کے کھانے سےپہلےیہ خودکلامی ضروری ہے،’’زیادہ مت کھانا‘‘۔ کوشش کریں کہ خاموشی سے اور تنہائی میں کھانا کھائیں۔ ایک وقت میں ایک طرح کی سبزی یا گوشت کھانے کی عادت ڈالیں۔ کھانے کے بعد ہاضمےکےلیےچورن استعمال کرنےمیں کوئی مضائقہ نہیں۔ قبض انسانی صحت کا سب سے بڑی دشمن ہے۔ بھلے قبض کُشا ادویہ استعمال کریں، مگر اپنے پیٹ اور آنتوں کو صاف اور ہلکا رکھیں۔٭ دماغی سُکون اور اطمینان کے لیے بینک میں مناسب رقم ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کروڑہا روپے کی صُورت ہو، پر اتنی ہونی چاہیے، جو مستقبل کی ضروریات اور دُکھ بیماری کے لیے کافی ہو۔٭ غصّہ صحت کا دشمن ہے۔ اِس سے پرہیزکی عادت ڈالیں اور ہنسنا مُسکرانا سیکھیں۔ ٭ ’’جھوٹ مت بولیں‘‘ یقینا جھوٹ ایک ایسا بوجھ ہے، جو انسان اپنے ضمیر ہی پر نہیں دِل ودماغ پر بھی لیے پِھرتا ہے۔ ٭ دان پُن، خیرات اور امداد دِل کھول کر کریں۔ 

یہ روح کو صاف کرتے ہیں۔ ویسے بھی انسان اپنا مال و متاع قبر میں ساتھ لے کر تو نہیں جاتا۔ آخر میں وہ نصیحت کرتے ہیں کہ انسان کو کم از کم ایک مشغلہ(Hobby)ضرور اپناناچاہیے، چاہے وہ باغ بانی، موسیقی، بچّوں یا ضرورت مندوں کی اصلاح و امداد ہو یا کوئی اور۔ ایک آدمی کے لیے اپنے دماغ اور ہاتھوں کو بہتر صُورت مصروف رکھنا چاہیے۔ خوش ونت سنگھ نےصحت کوبنیادی اہمیت دی۔ یقینا ًصحت کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ہم اپنا گھر، شہر یہاں تک کہ جیون ساتھی بھی بدل سکتے ہیں، مگر اپنا بدن نہیں بدل سکتے۔ بدن ایک ایسا گھر ہے، جس میں ہمیں ہر حال میں رہنا ہے۔ اگر ہم اپنے گھر کو صاف کرکے سجا سنوار سکتے ہیں، تو اس سے کہیں اہم بدن کو توجّہ اور احتیاط کے ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتے۔

’’اسرائیلیات‘‘ کی یہودی اور مسیحی عالموں کے ذریعے ہم تک پہنچی روایات میں ایک واقعہ مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوا کرتے تھے۔ بعض اوقات وہ خداوند تعالیٰ سے بے تکلف ہوجایا کرتے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ باری تعالیٰ تُو واحد و تنہا ہے، تیرے سوا کوئی رب نہیں اور تیرا کوئی خالق نہیں، پر اگر تیرا کوئی رب ہوتا اورتوُ اس سے کوئی ایک شے مانگ سکتا تو کیا مانگتا؟اس پر باری تعالیٰ نے فرمایا،’’صحت‘‘۔ گویہ ضعیف روایت ہے، پریہاں اس کا تذکرہ علامتی ہے، جو صحت کی اہمیت پر زور دینے کے لیے رقم کیا گیا ہے۔ جاوید چوہدری صاحب میرے عزیز دوست اور معروف صحافی ہیں۔ وہ ایک واقعہ سُناتے ہیں، جس نے اُن کی زندگی کی ترجیحات بدل ڈالیں۔ شیخ حفیظ اُن کے پرانے قریبی دوست اور ایک بینکار تھے۔ 

یہ اکثر و بیش تر کسی مشورےکےلیےاُن سےرجوع کرتے۔جب چوہدری صاحب نوجوان تھے اور شیخ صاحب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑے تھے تو ایک مرتبہ یہ شیخ صاحب کے ہاں گئے۔ وہ آزردہ اوراداس بیٹھےتھے۔ چوہدری صاحب نے اُن کی اداسی کی وجہ پوچھی تو بولے ’’مَیں نے ساری زندگی بہت محنت کی اور اپنی خواہشات کو آنے والے کل پرٹالتا رہا۔ مَیں نے سوچ رکھا تھا کہ جب خُوب پیسے اکٹھے کرلوں گا، تومَن بھاتے کھانے کھاؤں گا اور دنیا کی سیر کروں گا۔ اب میرے پاس دولت ہے، پر صحت نہیں۔ مجھے شوگر ہے، دل کی ایک دھڑکن مِس ہوتی ہے، عارضۂ قلب میں مبتلا ہوں اور کئی بیماریوں نے آن گھیرا ہے۔ مَیں اپنی مرضی کا کھانانہیں کھاسکتااورگھرسے نکلتے ہوئے اہلِ خانہ میں سے کوئی ایک فرد میرے ساتھ ہوتا ہے، مبادا مجھے کچھ ہو جائے اور کوئی پرُسانِ حال نہ ہو۔ گزرےوقت کومیں پا نہیں سکتا۔ ایک احساسِ زیاں ہے، جو مارےدیتا ہے‘‘ یہ سُن کرچوہدری صاحب نےفیصلہ کرلیاکہ وہ اپنی زندگی کوکسی اَن دیکھے مستقبل کے لیے ضائع نہیں کریں گے، ہرروز جئیں گے اورجو میسّر ہے، اُسی سے زندگی کا لُطف کشید کریں گے۔ نتیجتاً شوگرکی بیماری کے باوجود وہ دنیا کے قریباً ایک سو ممالک کی سیاحت و مطالعاتی دورے کرچُکے ہیں، روزانہ ورزش کرتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں اور اپنی صحت کا اس طرح خیال رکھتے ہیں، جس طرح سات بہنیں اکلوتے بھائی کا۔

عُمدہ صحت برقرار رکھنے کا کوئی ایک سنہرا کلیہ نہیں۔ ایک صحت مند اور محتاط انسان کی زندگی میں بھی بعض اوقات ایسی بیماریاں اور معذوریاں بن بلائے مہمان بن جاتی ہیں، جن کا اُس نے تصّور بھی نہیں کیا ہوتا۔ ان استثنیات سے ہٹ کر، ماہرین کے مطابق مستقل اچھی صحت کے لیےمعتدل خوراک، باقاعدہ ورزش، مناسب نیند، بدن اور جائے قیام کی صفائی ستھرائی اور سر پر چھت کا ہونا ضروری عوامل ہیں۔ سائنس کی مختلف غذاؤں کے صحت بخش اور ضرر رساں ہونے کے بارے میں رائے بدلتی رہتی ہے۔ پس کلیہ یہ ہونا چاہیے کہ قدرت کی پیدا کی گئی ہر جائز اور حلال غذا کھائی جائے، پر اعتدال کے ساتھ۔ علاوہ ازیں، میں نے بہت کم ایسا دیکھا ہےکہ کوئی موٹا شخص بڑھاپے میں بیماریوں اور علّتوں کا شکار نہ ہوا ہو۔ سردار دیوان سنگھ مفتون اپنی عُمدہ تصنیف ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’موٹاپا جسم میں کاہلی اور سُستی پیدا کرنے کاباعث ہے۔

اس سے عُمر بھی کم ہوجاتی ہے، اوریہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں میں مذاق اورحقارت کا سبب بھی بنتا ہے۔ موٹاپا کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان قد ِآدم آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے جسم کو اچھی طرح دیکھے تاکہ اُس کے دل میں اپنے فربہ جسم کےلیےنفرت پیداہو اور وہ اپنی قوتِ ارادی استعمال کرتے ہوئے ورزش کرے، کم کھائے اور ضرورت ہو تو فاقے بھی کرے‘‘۔ ایڈورڈ اسٹن لیے نے لکھا ہے ’’وہ لوگ جن کے پاس صحت بخش غذا کے اہتمام اور کھانے کے لیے وقت نہیں، اُنھیں جلد یا بدیر بیماری کے لیے وقت نکالنا پڑے گا۔‘‘اسی طرح ایک آیورویدک کہاوت ہے’’جب غذا غلط ہوگی تو دوا کا فائدہ نہیں ہوگا۔ جب غذا درست ہوگی تو دوا کی ضرورت نہیں ہوگی‘‘۔ 

مَیں نے اپنے بزرگ اساتذئہ ادب، احمد ندیم قاسمی صاحب اور شکیل عادل زادہ صاحب میں بہت سی عادات کے علاوہ ایک عادت مشترک دیکھی۔ احمد ندیم قاسمی نے قریباً نوّے برس کی عُمر پائی، چھوٹی موٹی بیماریوں کے سوا کوئی بڑی بیماری نہیں ہوئی اور وفات سے چند روز پہلے تک وہ مجلسِ ترقی ٔ ادب کے دفتر باقاعدگی سے آتے رہے۔ شکیل عادل زادہ اسّی برس سے اوپر عُمر میں ایک بھرپور زندگی جی رہے ہیں، بازار سے سوداسلف خود لاتے ہیں، گاڑی چلاتے ہیں اور بلا کی یادداشت قائم ہے۔ میرے والد صاحب بھی الحمدللہ، چند سال پہلے اسّی برس کی عُمرعبور کرچُکے ہیں، فعال ہیں اور امور ِ زندگی میں بھرپور حصّہ لیتے ہیں۔ یقیناً ان سب بزرگوں کی طویل العمری اور صحت میں بےشمار عوامل کار فرما ہیں، مگر اُن میں سے ایک مشترک عادت ’’قیلولے‘‘ کی ہے۔ عبداللہ حسین نے 84برس کی عُمر پائی، بھرپور زندگی گزاری، اواخرِعُمر تک ادبی میلوں وغیرہ میں شریک ہوتے رہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین