• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برِصغیر میں برطانوی راج کے ابتدائی دور سے ہی انگریزسامراج کو مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے اور پھر 1857میں برطانوی راج کے خلاف ہونے والی بغاوت کے بعد تو ان کے جذبات مسلمانوں کے خلاف کچھ زیادہ ہی بدتر ہوگئے تھے۔ مزید برآں، ناصرف انگریز سرکار کا جھکاؤ ہندواکثرینی کانگریس کی طرف تھا، بلکہ کانگریس کے رہنما بھی انگریزکے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس طرح وہ ان سے بہتر سہولیات حاصل کرنے کے متمنی تھے اور اسے برِصغیر کی تقسیم اپنی مرضی اور منشا کے مطابق کرنے کی تگ و دو کے طور پر استعمال کررہے تھے۔

آخر وہ کیا پس منظر تھا، جس کے باعث مسلمانانِ ہند کے لیے اپنے لیے جداگانہ مملکت کا حصول ناگزیر بن چکا تھا، درج ذیل میں اسی کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے:

٭جب برطانوی راج نے ایسٹ انڈیا کمپنی نے کے ذریعے برِصغیر میں آمد کا سلسلہ شروع کیا تو اس وقت یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ ایسے میں جن حالات میں سازشوں کے ذریعے برطانوی راج نے برِصغیر پر قبضہ کرکے یہاں حکمرانی کا آغاز کیا تو اس سے پہلے ہندوستان کی سرزمین پر صدیوں سے مسلمان برسرِ حکمرانی تھے اور یہاں ہندو (جو برصغیر میں اکثریت میں تھے) ایک طویل عرصہ تک مسلمان بادشاہوں کی رعایا رہے تھے۔ انھوں نے بعدازاں انگریزوں کی قربت حاصل کرلی۔ انگریزوں نے بھی حکومت چونکہ مسلمانوں سے چھینی تھی، اس لیے انھیں زیادہ ردعمل کا خوف بھی مسلمانوں سے ہی تھا اور وہ مسلمانوں کو دبائے رکھنا چاہتے تھے۔ اس پس منظر میں انگریزوں اور ہندوؤں کی قربت قابل فہم ہے۔

٭ چونکہ برِصغیر میں انگریزی سامراج نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی، اس لیے ان کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں یہی کوشش رہی کہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا جائے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ دوبارہ قوت حاصل کرکے انگریز حکومت کے خلاف نعرہ مزاحمت نہ بلند کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو حکومت سے ہی محروم نہیں کیا گیا بلکہ مجموعی طور پر وسائل زندگی کے اعتبار سے بھی بہت کمزور کردیا گیا تھا۔

٭ انگریز حکمران شاطر اور تیز دماغ تھے۔ انھوں نے ابتدا میں ہی مسلمانوں سے متعلق جو اندازہ قائم کیا تھا، وہ اس وقت درست ثابت ہوا، جب 1857میں برِصغیر میں قابض حکومت کے خلاف نعرہ مزاحمت بلند ہوا۔ برطانوی راج کے دوران، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف کئی بڑے بڑے معرکے مسلمانوں ہی نے لڑے تھے، اور 1857ء کی جنگ آزادی تو مسلمانوں نے ہی برپا کی تھی۔

٭ مغرب سے آنے والا جمہوریت کا تصور کانگریس کو خوب بھاتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی تصورِ جمہوریت کی مدد سے وہ برصغیر پر اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو ہندوستان میں اپنے زیرِ اقتدار رکھ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ کی قیادت ہرچندکہ کانگریس کے تسلط سے نالاں تھی، لیکن ابتدا میں قائم اعظم اور دیگر مسلمان رہنما متحدہ ہندوستان کے اندر اپنے حقوق حاصل کرنے کی جنگ لڑرہے تھے، لیکن جلد ہی مسلم لیگ کی قیادت کو احساس دلایا گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور دینی حقوق حاصل نہیں ہوسکیں گے۔

٭مسلمان بھی برصغیر میں کوئی معمولی اقلیت نہ تھے۔ اپنے ماضی کی تاریخ کے زیراثر وہ اقلیت کا کردار قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایک اندازے کے مطابق، ہندوستان میں اُس وقت تقریباً 40فیصد مسلمان آباد تھے۔ بعض صوبوں میں انھیں اکثریت بھی حاصل تھی۔

٭مسلمان محسوس کرتے تھے کہ انھیں معاشی اور سماجی طور پر جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا تھا۔

٭مسلمانوں کو یہ بھی احساس تھا، جو ہندوستان کے طول وعرض میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں درست بھی تھا کہ ہندو اپنی اجتماعی اکثریت اور مذہبی تصورات کی بنیاد پر مسلمانوں سے تعصب برتتے ہیں اور انھیں بہت سے مقامات پر اپنے مذہب پر آزادی سے عمل کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔

٭ مسلمانوں کے ممتاز رہنماؤں، جن میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شامل تھے، نے پہلے مرحلے پر ہندوستان کے اتحاد اور مسلم ہندو یگانگت پر زور دیا اور ہندوستان کی وحدت کی بقا کے لیے آواز اٹھائی لیکن مسلسل تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس کی قیادت مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے پر آمادہ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، متحدہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے بعد حکومتوں کی تشکیل میں کانگریس نے وہاں بھی مسلمانوں کو اقتدار سے محروم رکھنے کے لیے سو طرح کے جتن کیے۔

یہی وہ اہم اور بنیادی وجوہات تھیں، جس کے بعد مسلمان رہنماؤں نے آخر کار الگ مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز ایک آزاد خود مختار ریاست کا تصور اختیار کرتے کرتے مختلف مراحل سے گزرتی رہی اور آخر وہ دن بھی آیا، جب 14اگست 1947کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی آزاد اور خودمختار ریاست مسلمان ریاست اُبھر کر سامنے آئی۔

تازہ ترین