• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا یقین ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست ’پاکستان‘ کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ ہمیں فخر ہے اپنے پاکستانی ہونے پر، ہمیں فخر ہے کہ ہم دنیا بھر میں ایک آزاد مسلم ریاست کے شہری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ یہ وطن ہماری جان، ہمارا مان اور ہماری پہچان ہے۔ دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک مانی جانے والی افواجِ پاکستان دشمن سے مقابلہ کرنے کیے لیے ہر دَم تیار ہے اور پاک فوج کے جانباز سپاہی سرحدوں پر بہادری سے ہروقت پہرہ دے رہے ہیں۔ یہ جانباز 73سال سے پاک سرزمین کی حفاظت کے لیےاپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے آئے ہیں لیکن دشمن کو اس کے مذموم عزائم میں کبھی کامیاب ہونے نہیں دیا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے دیں گے (انشاأللہ)۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ارض پاک کی کھلی فضاؤں میں خود مختار حیثیت سے سکون کا سانس لے رہے ہیں۔

آج یوم آزادی کے موقع پر ہربار کی طرح اس بار بھی آزاد وطن کی اہمیت اور قدرو منزلت کا احساس مزید شدت سے اُجاگر ہورہا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی جانب سے آزاد ملک حاصل کرنے کی جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں ہمیں 14اگست 1947ء کو ایک خود مختار نظریاتی ریاست ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ حاصل ہوئی۔ مسلمانانِ برصغیر نے قائداعظم محمد علی جناح کی زیرقیادت طویل جدوجہد کے بعد خالصتاً آئینی و جمہوری طریقے سے دو قومی نظریے کی بنیاد پر انگریز و ہندو سامراج سے یہ آزادی حاصل کی ۔ مسلمانوں نے آزاد ریاست اس عہد کے ساتھ حاصل کی تھی کہ یہ مسلم اُمہ کیلئے نظریاتی تجربہ گاہ ہوگی اور مسلمانانِ ہند کے سیاسی، معاشی، سماجی اور تہذیبی حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہوگی، جہاں تمام مسلمان اپنی ثقافتی، تہذیبی اور دینی اقدار کے مطابق آزادانہ زندگی گزاریں گے۔ یہ ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں غیر مسلم بھی اپنے عقائد پر عمل کرنے میں آزاد ہوںگے۔

جس طرح ہمارے آباؤ اجداد کے لیے ایک مسلم ریاست کا وجود لازم وملزوم تھا، اسی طرح ہمارابھی فرض ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کے قائدین اور آباؤ اجدادکے چھوڑے ہوئے ترکے اور پیارے وطن کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی وہ تمام ذمہ داریاں پوری کریں،جو اس ملک کی تعمیر و تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ یہ صرف میرا اور آپ کا ہی نہیں بلکہ ہر اس شخص کا فرض ہے، جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا اور ا س کے حوالے سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آج آزادی کے دن تجدید وفا کرتے وقت ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اس ملک کو کیا دیا؟ محبت قربانی مانگتی ہے، جذبہ ایثار اور ایمانداری چاہتی ہے تو کیا ہم اپنے ملک سے مخلص ہیں؟ ملک بھر میں صفائی، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر دیکھ کر صوبائی اور بلدیاتی اداروں کو قصور وار ٹھہرا کر ہم بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ گھروں سے باہر اور گاڑی میں سفر کے دوران کچرا اور تھیلیاں سڑک پر پھینکتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہی کوڑا کرکٹ ماحول کی خرابی کا باعث بن رہا ہے۔ 

بلدیاتی اداروں کا کام اپنی جگہ لیکن ہمیں خود بھی صفائی کا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح ہم ملک بھر میں بڑھتے ٹریفک حادثات کا ذمہ دار قوانین اور سڑکوں کی بدحالی کو قرار دیتے ہیں لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سڑکوں پر تعینات ٹریفک پولیس انہی قوانین کی پاسداری کروانے کے لیے تعینات کی گئی ہے، ہم بس انھیں بُرا بھلا کہتے ہوئے ان کی نظروں کے سامنے سگنل توڑ کر یا مخالف سمت میں گاڑی اور بائیک چلاکر فراٹے بھرتے ہوئے نکل جانا اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ 

یہ تو ہماری روزمرہ زندگی کا ایک پہلو ہے، اس جیسے بہت سے دیگر مسائل بھی ہیں جو ہم انفرادی یا اجتماعی طور پر سرانجام دیتے ہیں اور اس پر کسی قسم کا پچھتاوا تک نہیں ہوتا۔ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں، اس صورتحال کا تدارک اور روک تھام ہماری فوری توجہ کی متقاضی ہے۔

یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ آج وطنِ عزیز کے حالات آئیڈیل نہیں، لیکن یہ سوچتے وقت ان حالات اور واقعات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جن کا اس عرصے میں اس قوم کو سامنا رہا ہے۔ قوموں کے لیے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، اس قوم میں مشکلات سے لڑنے کا جذبہ آج بھی اتنا ہی پختہ ہے، جتنا آزادی کے وقت تھا۔ اس کے پیشِ نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس قوم کو دنیا کی کوئی قوت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

زندہ قوموں کی پہچان ہے کہ وہ اپنے قومی دنوں کو جوش وجذبہ اور زندہ دلی سے مناتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دن جذبہ حب الوطنی کی تجدید بھی کی جائے۔ اس دن ایسے اقدامات یا عہد کیے جائیں، جس سے آپ پاکستان کی ترقی وخوشحالی میں بھی شراکت دار بنیں۔ اس تاریخی دن دنیا کے نقشے پر ایک نئی مسلم ریاست اُبھری تھی، لہٰذا ہمیں اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔ اس دن کو یومِ تجدید عہد سمجھتے ہوئے وطن عزیز کی سربلندی کیلئے کوششیں کرنے کا ارادہ کرنا چاہیے۔ 

ہمیں آپس کے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے ہوںگے۔ اس کے علاوہ قائداعظم کے تین سنہری اصول ’’اتحاد، ایمان اور تنظیم‘‘ پر کاربند ہوتے ہوئے خود کو لسانی، علاقائی، مسلکی اور گروہی اختلافات سے دور رکھناہوگا۔ ملک کو صحیح سمت میں گامزن کرنے کیلئے اپنا اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرنا ہوگا۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا ہوگا، ساتھ ہی دوسروں کو بدلنے سے پہلے خود کو بدلنا ہوگا۔

تازہ ترین