• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عرب ممالک، خارجہ پالیسی کا محور معاشی مفادات پر ہوگا، تجزیہ کار


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں کہا ہے کہ عرب ممالک کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ فلسطین پر مذہب کی بنیاد پر تھا اب معاشی مفادات کی بنیاد پر ہوگا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ڈیل ہوگئی ہے جسے تاریخی اور خطے میں امن کیلئے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے،حکومت کیخلاف نیب کے بلین ٹری سونامی کیس میں ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، اس کیس میں تحریک انصاف کی حکومت نے بے ضابطگیوں کا اعتراف کرلیا ہے اور اپنے ہی افسران کیخلاف ایکشن بھی لے لیا ہے، میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اچھے مستقبل کی خبر سنائیں، وزیراعظم نے بجلی بنانے والی کمپنیوں سے نئے معاہدوں کی نوید سنائی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی امید دلائی،1947ء میں دو ملک پاکستان اور بھارت آزاد ہوئے پھر 1971 ء میں بنگلہ دیش بنا، پاکستان میں ہم آج بھی ماضی میں جی رہے ہیں کہ ہماری ایئر لائن 70کی دہائی میں اچھی تھی، اسٹیل مل بہترین تھی اور معاشی ترقی کررہی تھی، کیا باقی ممالک بھی ماضی میں جی رہے ہیں یا انہوں نے اپنے حال کا بہتر کیا، پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کا موازنہ کریں تو 1988ء میں بھارتی جی ڈی پی 297ارب ڈالر تھی، پاکستانی معیشت کا 40ارب ڈالرز جبکہ بنگلہ دیش کی معیشت محض 26ارب ڈالرز تھی، پاکستان کی فی کس آمدنی 380ڈالرز، بھارت کی 350ڈالرز جبکہ بنگلہ دیش کی 270ڈالرز تھی، 1998ء میں بھارتی جی ڈی پی 410ارب ڈالر، پاکستانی جی ڈی پی 60ارب ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کی معیشت 50ارب ڈالر تک پہنچ گئی، 2005ء میں بھارتی معیشت 800ارب ڈالر، پاکستانی معیشت 100ارب ڈالر اور بنگلہ دیش کی معیشت 80ارب ڈالرز تھی، اسی سال بھارت نے پہلی دفعہ پاکستان کو فی کس آمدنی میں بھی پیچھے چھوڑ دیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ 1971ء میں بنگلہ دیش سے پچاس لاکھ کم آبادی والے پاکستان کی آبادی 2005ء میں بنگلہ دیش سے دو کروڑ زیادہ ہوگئی، 2007ء میں بھارتی جی ڈی پی 1200ارب ڈالر، پاکستان کی 150ارب ڈالر اور بنگلہ دیش کی 80ارب ڈالر پہنچ گئی تھی، یہ وہ وقت تھا جب بھارت اور بنگلہ دیش میں معیشت کی مضبوط بنیادیں رکھی گئیں جبکہ پاکستان کا درآمدات پر انحصار بڑھ رہا تھا، 2018ء میں بھارتی معیشت کا حجم پاکستان سے دس گنا زیادہ ہوگیا، بھارت معیشت 2700ارب ڈالرز تک پہنچ گئی جبکہ ہم 314ارب ڈالرز تک پہنچے اور بنگلہ دیش کی معیشت 275ارب ڈالرز کی ہوگئی، پچھلے دو برسوں میں ہم نے ترقی نہیں کی، روپیہ گرنے سے ہم ڈالرز میں اور پیچھے چلے گئے، پاکستان کی معیشت 314ارب ڈالرز سے 270 ارب ڈالرز پر پہنچ گئی، بھارتی معیشت 3ہزار 200ارب ڈالرز پر پہنچ گئی جبکہ بنگلہ دیش کی معیشت 275ارب ڈالرز سے زائد یعنی ہم سے زیادہ ہوگئی۔شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ 1999ء میں بھارت کی برآمدات 36ارب ڈالرز، پاکستان کی 8.4ارب ڈالرز اور بنگلہ دیش کی 6ارب ڈالرز تھیں، 2013ء میں بھارتی برآمدات 313ارب ڈالرز اور پاکستان کی 25ارب ڈالرز تھیں جبکہ بنگلہ دیش کی برآمدات بڑھ کر پاکستان کے برابر ہوچکی تھیں، 2012ء میں پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 22ارب ڈالر رہ گئیں جبکہ بنگلہ دیش ہم سے بہت آگے 40ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ میں دو بڑے تنازع رہے ہیں، ایک مسئلہ فلسطین پر اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کا تنازع اور دوسرا عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور ایران میں تنازع ہے، اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کا تنازع حل کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے، نظر آرہا ہے کہ عرب ممالک کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ فلسطین پر مذہب کی بنیاد پر تھا اب معاشی مفادات کی بنیاد پر ہوگا، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ڈیل ہوگئی ہے جسے تاریخی اور خطے میں امن کیلئے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے، پاکستان کا بھی اس معاہدے پر ردعمل سامنے آگیا ہے، دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے معاہدے کے دور رس مضمرات ہوں گے، پاکستان فلسطینیوں کے قانونی حقوق اور خودمختاری کے حقوق کا ادراک رکھتا ہے، پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی قراردادوں کے مطابق جامع اور پائیدار امن کیلئے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے، پاکستان جائزہ لے گا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور خواہشات کو کیسے برقرار رکھا جائے گا،دوسری جانب ایران، ترکی اور فلسطینی اتھارٹی نے اس معاہدے کی مذمت کی ہے، یو اے ای اسرائیل معاہدے کے بعد خدشہ ہے کہ عرب ممالک کا ایران کے ساتھ تنازع مزید بڑھے گا، خدشہ ہے کہ امریکی صدر ایران کے حوالے سے مزید سخت فیصلے کریں گے جس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھے گی۔

تازہ ترین