پاکستان ،ہندوستان او ر بنگلا دیش کو ملا کر انگریزی میں’’ سب کونٹی نینٹ‘‘ (subcontinent) کہاجاتا ہے۔ اس کا ترجمہ بالعموم ’’بر ِ صغیر‘‘ کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح Indo-Pak subcontinent کو اردو میں ’’برِصغیر پاک و ہند‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ( عربی اور فارسی میں ’’و‘‘ دراصل ’’اور‘‘ کے معنی میں آتا ہے) ۔
بعض اہلِ علم’’ سب کونٹی نینٹ‘‘ (subcontinent)کا ترجمہ برِ صغیر کی بجاے بر ِعظیم کرتے ہیں، مثلاً ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی معرکہ آرا کتاب کا جب ہلال احمد زبیری نے اردو میں خوب صورت اور رواں ترجمہ کیا تو اس کا نام’’ برِ عظیم پاک وہند کی ملت ِ اسلامیہ ‘‘ر کھا ۔ بعض لوگ پوچھتے بھی ہیں کہ برِعظیم کیوں بر ِ صغیر کیوں نہیں؟
دراصل انگریزی کے لفظ کونٹی نینٹ (continent) کا ترجمہ اردو میں برِاعظم کیا جاتا ہے۔ ’’ بَرّ‘‘ (بے پر زبر اور رے پر تشدید ) عربی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے زمین یا خشکی ،یعنی پانی یا سمندر کے مقابل میں خشکی کو بر کہتے ہیں۔ بر کی ضدہے بحر یعنی سمندر ۔اسی لیے بحر وبر کی ترکیب ’’پوری دنیا‘‘ یا’’ ہرجگہ ‘‘ کے مفہوم میں استعمال کی جاتی ہے ۔ ’’اعظم ‘‘ کا مطلب ہے زیادہ بڑا ، زیادہ عظیم، سب سے بڑا، سب سے عظیم۔مثلاًقائد ِ اعظم یعنی سب سے بڑا قائد۔ براعظم کو براعظم اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ خشکی کا ایک بہت عظیم،زیادہ وسیع اور مسلسل قطعہ ہوتا ہے۔ دنیا میں سات بر اعظم ہیںاور ہمارا براعظم ایشیا ان میں سے ایک ہے۔ لیکن براعظم ایشیا میں ایک خطہ اتنا بڑا ہے کہ بذات ِ خود ایک چھوٹا سا براعظم ہے یعنی پاکستان، ہندوستان اور بنگلا دیش کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا براعظم ہے۔لیکن اس چھوٹے برِاعظم کو برِ صغیر کہا گیا۔
صغیر کا مطلب ہے چھوٹا اور برِ صغیر کا مطلب ہوا خشکی کا چھوٹا سا ٹکڑا ۔ لیکن خشکی کا چھوٹا سا ٹکڑا تو کوئی ملک بھی ہوسکتا ہے اور کوئی چھوٹا سا جزیرہ بھی۔ لیکن ہمارا یہ چھوٹا ٹکڑا اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے کہ اسے برِ’’صغیر ‘‘کہا جائے۔دراصل کسی چیز کی چھوٹائی اور بڑائی کا تصور اس وقت تک واضح نہیں ہوتا جب تک اس کا موازنہ کسی اور چیز سے نہ کیا جائے ۔ مثلاً ہاتھی کا بچہ جتنا بھی چھوٹا ہو، وہ بڑے سے بڑے چوہے سے بڑا ہوگا۔ اسی طرح براعظم جتنا بھی چھوٹا ہو اتنا چھوٹا نہیں ہوگا کہ اسے چھوٹا یعنی صغیر کہا جاسکے۔
اوراگر قواعد کے لحاظ سے موازنے کو دیکھا جائے تو ’’ اعظم ‘‘ تفضیل ہے ’’عظیم ‘‘ کی نا کہ ’’صغیر‘‘کی۔یعنی اعظم سے کم تر درجے میں عظیم ہوتا ہے۔ ہاں اصغر سے کم تر درجے میں صغیر ہوگا۔ اگر یہ’’ برِ اصغر‘‘ہوتا تو ہم اسے برصغیر کہتے ۔عربی زبان میں جب کسی چیز کا موازنہ کرناہو اور اسے مقابلۃً برترظاہر کرنا ہو تو اس کے لیے جولفظ استعمال ہو تاہے اسے قواعد میں اسم ِ تفضیل کہتے ہیں۔ تفضیل اصل میں فضل (ف۔ض۔ل) سے ہے۔تفضیل کے لفظی معنی ہیں فضیلت دینا، فوقیت دینا، ترجیح دینا۔جب ایک چیز دوسرے سے بڑھ کر ہوتو اسے ظاہر کرنے کے لیے اسم ِ تفضیل لاتے ہیں ۔ عربی میں اس کے لیے ’’اَفعَل ‘‘ (اَ،ف۔ عَ ۔ل) کے وزن پر الفاظ بنائے جاتے ہیں ، مثلاً :
لفظ تفضیل
صغیر اَصغر (زیادہ چھوٹا یا سب سے چھوٹا )
جمیل اَجمل (زیادہ حسین یا سب سے حسِین)
عظیم اَعظم (زیادہ بڑا یا سب سے بڑا)
حسین اَحسن (زیادہ حسین یا سب سے حسین)
کبیر اَکبر(زیادہ بڑا یا سب سے بڑا )
تو یہ خشکی کا عظیم ٹکڑا ہے نہ کہ صغیر ٹکڑا ۔اوراعظم سے کم تر درجے میں عظیم ہوگا ناکہ صغیر ۔ اس لیے بر عظیم کہنا چاہیے۔
یاد رہے کہ عربی کے ’’بر‘‘میں رے (ر ) پر تشدید ہے یعنی یہ ’’برّ ‘‘ہے۔اوریہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ایک ’’بر ‘‘فارسی میں بھی ہے(بغیر تشدید کے) جس کا مطلب ہے :پر، کے اوپر، مثلاً بروقت یعنی ٹھیک وقت پر۔ بر محل یعنی صحیح موقعے پر، مناسب و موزوں ۔ ایک’’ بر‘‘اردو یا ہندی میں بھی ہے ۔ یہ بھی بغیر تشدید کے ہے اور اس کا مطلب ہے :ہونے والا شوہر،منگیتر،وہ جو کسی لڑکی سے شادی کا خواہش مند ہو، وہ لڑکا جس سے کسی لڑکی کی منگنی یا شادی طے ہو، متوقع رشتہ۔بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں کہ کوئی اچھا بر ملے تو لڑکی کی بات طے کریں۔
اسی لیے شادی سے پہلے ’’بر دِکَھوّا ‘‘ہوتا ہے گویا بر(یعنی متوقع رشتہ ) دکھانے کا عمل۔اسے بر دکھائی یا بر دکھاوا بھی کہتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ’’کہتے تھے‘‘اور ’’ہوتا تھا ‘‘۔کیونکہ اب تو لڑکیاں چشم ِ بد دورخود ہی موبائل فون پر اپنا بر نہ صرف دیکھ لیتی ہیں بلکہ پسند کرکے ہاں بھی کردیتی ہیں۔