• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیشنل فنانس کمیشن (NFC) کا بنیادی مقصد ملک کے محصولات اور آمدنی کی وفاق، صوبوں میں طے شدہ فارمولے کے تحت منصفانہ تقسیم اور وفاقی حکومت اور صوبوں کی مالی حالت کو مستحکم کرنا ہے۔ نیشنل فنانس کمیشن میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہوتی ہے، اس کا چیئرمین وفاقی وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے 1947ء میں ریزمین ایوارڈکے تحت سیلز ٹیکس کا 50فیصد وفاقی حکومت کو دیا۔ صوبوں کو وسائل کی منصفانہ تقسیم کیلئے قومی مالیاتی کمیشن 1951ء میںقیام میںلایا گیا تھا جبکہ 1961ءاور 1964ء میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں اس پروگرام کے تحت آمدنی تقسیم ہوئی۔1973ء میں این ایف سی کو آئینی تحفظ فراہم کیا گیا جس کے مطابق صدر پاکستان پر یہ لازم ہے کہ ہر 5سال بعد آئندہ 5سال کی مدت کیلئے نیا نیشنل فنانس کمیشن تشکیل دے۔ 2009ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وفاق کے شیئر میں کمی کی گئی جس کا براہ راست فائدہ بلوچستان کو پہنچا اور اس کا حصہ 5.22 سے بڑھا کر 9.39 فیصد کردیا گیا۔ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے این ایف سی ایوارڈ میں فیصلہ ہوا کہ صوبوں کا شیئر سابقہ ایوارڈ میں دیئے گئے شیئرز سے کم نہیں ہوسکتا۔ 2010ء تک این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم آبادی کے لحاظ سے کی جاتی تھی اور پنجاب آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ حصہ وصول کرتا تھا جبکہ چھوٹے صوبے اپنے جائز حصے سے محروم رہ جاتے تھے۔ 2010ء کے بعد نئے فارمولے کے تحت صوبوں میں فنڈز کی تقسیم کیلئے 4 عوامل بنائے گئے جن میں آبادی کا تناسب 82 فیصد، صوبوں کی غربت اور پسماندگی 10.3فیصد، محصولات کی وصولی 5فیصد اور صوبوں میں آبادی کی گنجائش کا تناسب 2.7فیصد رکھا گیا۔ اگر ہم ملک میں ریونیو کی وصولی کا جائزہ لیں تو 2012-13ء میں ایف بی آر کے مجموعی ریونیو کی وصولی 2000ارب روپے تھے جو 2018-19ء میں بڑھ کر 3800ارب روپے ہوگئی جس کی وجہ سے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کے ریونیو شیئر میں تقریباً دگنا اضافہ ہوگیا لیکن کچھ صوبوں میں اس اضافی ریونیو کو ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ پیپلزپارٹی نے صوبائی خود مختاری کیساتھ صوبوں کو اختیارات اور اضافی وسائل منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اٹھارہویں ترمیم میں اختیارات وفاق سے صوبوں کو دیئے گئے تاکہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے اضلاع کو مالی و انتظامی اختیارات دیئے جاسکیں لیکن صوبوں نے حقیقی معنوں میں اختیارات اور وسائل کی منتقلی نہیں کی جس کی وجہ سے وہاں ترقی اور خوشحالی دیکھنے میں نہیں آئی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک بھر سے ریونیو وصولی کے 5فیصد چارجز وصول کرتا تھا اور اس طرح 95 فیصد ریونیو وفاقی حکومت کو منتقل کرتا تھا جس کو کم کرکے اب ایک فیصد کردیا گیا ہے اور اب صوبوں کو فنڈز کی تقسیم 47.5فیصد سے بڑھ کر 57.5 فیصد ہوگئی ہے جبکہ وفاق کو 42.5فیصد فنڈز ملتے ہیں۔ نئے فارمولے کے تحت 2019-20ء کے قومی مالیاتی کمیشن کے فنڈز کی صوبوں کو منتقلی میں پنجاب کو 51.74 فیصد (1135ارب روپے)،سندھ کو 24.55 فیصد (592ارب روپے)، کے پی کے کو 14.62فیصد (379ارب روپے) اور بلوچستان کو 9.09فیصد (295ارب روپے)ملے۔

آج کل اٹھارہویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ زیر بحث ہے اور وفاقی وزیر اسد عمر نے ان میں ترمیم کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ صدر پاکستان عارف علوی نے دسواں نیشنل فنانس کمیشن تشکیل دیا لیکن وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو کمیشن کا چیئرمین مقرر کرنے پر اعتراض کیا گیا ہے کیونکہ یہ عہدہ وفاقی وزیر خزانہ کیلئے ہے، مشیر خزانہ کیلئے نہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو فنڈز کی تقسیم کا فارمولا جلد بازی میں منظور کیا گیا اور صوبوں کو اضافی فنڈز دینے کی وجہ سے وفاق کو دفاع اور دیگر اہم شعبوں کیلئے فنڈز میں کمی کا سامنا ہے جو ملکی سلامتی کے مفاد میں نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دفاع پورے ملک کیلئے کیا جاتا ہے لہٰذ ادفاعی اخراجات چاروں صوبوں میں تقسیم ہونے چاہئیں۔ اسی طرح ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیاں بھی قومی سطح پر ہوتی ہیں اور انہیں بھی صوبوں کو شیئر کرنا چاہئے لہٰذا نئے دسویں این ایف سی ایوارڈ میں دفاع، ملکی قرضوں، نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں (SOEs) پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، اسٹیل مل، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے ترقیاتی منصوبوں، ڈیمز اور دیگر میگا ترقیاتی منصوبوں کے اخراجات بھی صوبوں سے شیئر کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت دسویں این ایف سی ایوارڈ میں ان اخراجات کی مد میں فیڈرل ڈویزبل پول (FDP) میں صوبوں سے 15فیصد شیئرز کی کٹوتی کا ارادہ رکھتی ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا شیئر 57.5فیصد سے کم ہوکر 40فیصد اور وفاق کا شیئر 42.5فیصد سے بڑھ کر 60 فیصد ہوجائے گا۔ این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم ایک اہم قومی معاملہ ہے جس کی منظوری کیلئے حکومت کو دوتہائی اکثریت کی ضرورت ہوگی ، اس آئینی ترمیم کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد میں ایک متفقہ فیصلہ کرنا ہوگا۔

تازہ ترین