• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگرچہ تاحال امریکی سپرطاقت کو چیلنج کرنے کے لئے کوئی وجود نہیں ہے اور نہ ہی بظاہر کسی ملک کی یہ خواہش نظر آرہی ہے کہ امریکہ کو چیلنج کرے البتہ ساری دُنیا کی یہ خواہش ضرور ہے کہ امریکہ خود اپنی سپرطاقت کے دعوے سے تائب ہو جائے کہ اب اُس کو مشکلات کا سامنا ہے۔9/11 کے واقعے نے امریکیوں کو غیض و غضب کا شکار کیا اور وہ زیادہ جارحیت پسند ہو گئے۔ نتیجے میں انہوں نے اپنی حکومت کو افغانستان پر حملے کی اجازت دے دی اور پھر عراق پر بھی حملہ کر دیا حالانکہ عراق کا القاعدہ سے دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ اس واقعے کو 12 سال ہونے کو ہیں کہ امریکہ کی معیشت بیٹھ گئی، اُس کے اندر انتہاپسندی نے اُسی طرح زور پکڑا جیسا کہ پاکستان میں روس کی شکست کے بعد ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا اور جس کی زد میں پاکستان اب تک ہے، اِسی طرح اب امریکہ میں ایک دو امریکی مردوں، عورتوں اور بچوں کو مارنا عام ہو گیا ہے۔ دہشت گردی خود اُن کے ملک میں اپنے لوگوں کے ذریعے گھس آئی ہے۔ تیسرے امریکہ نے عام مسلمانوں سے ایک گہری دشمنی مول لے لی ہے جو بہت دیر تک لڑنے کے عادی ہیں۔ اگرچہ خود ایک امریکی فوجی دانشور کرنل پیٹر رالف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ”جنگ سے کبھی باز نہ آوٴ“ مگر امریکی عوام یا کسی بھی ملک کے عوام چین کی نیند سونا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں میں امریکہ نے جو خون آشام جنگ چھیڑی ہوئی ہے وہ اُس کے عادی ہو چکے ہیں تاہم اب امریکیوں کی نیند حرام ہو رہی ہے۔ وہ ہر روز کوئی نئے واقعے کے رونما ہونے کے خوف میں مبتلا رہنے لگے ہیں جو کہ ہو بھی رہے ہیں۔ میراتھن ریس کے موقع پر ایک دھماکہ ہوگیا پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی جہاں 70 سے 200/افراد کے مرنے کی اطلاع ہے۔ خود امریکی صدر اوباما کو بھیجے گئے ایک خط کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ زہرآلود تھا، ایسا ہی ایک خط ایک سینٹر کو بھیجا گیا۔
ایف بی آئی کہہ رہی ہے کہ واقعی یہ خط زہرآلود تھا جس کا وہائٹ ہاوٴس میں جانے سے پہلے سیکریٹریٹ سروس نے پتہ لگا لیا۔ اس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں بہت بے چینی ہے، اُس کی وجوہات، معاشی بھی ہوسکتی ہے یا پھر اُن کے معاشرے میں تشدد کی جو لہر اٹھ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ بہت سے تکلیف دہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اوباما نے ملٹری سے کئی ہزار افراد نکال دیئے ہیں۔ اُس کا ردعمل ہو سکتا ہے کیونکہ جو فوجی نکالے گئے وہ انٹیلی جنس کے افراد بھی تھے، پانچ ہزار کی تعداد میں نکالے گئے افراد میں دو انٹیلی جنس ایجنسیاں تھیں اور اس دو بریگیڈ اور دو جنرل حضرات شامل تھے۔ اب یہ بات تحقیق طلب ہے کہ کیا وکی لیکس انہی لوگوں کی کارروائی تھی یا کوئی اور بھی اِس معاملے میں شامل تھا۔ اس کے بعد بھی صدر بارک حسین اوباما نے کئی ہزار اور ملٹری افراد نکالے ہیں اور ملٹری بجٹ کم کیا ہے جس کے بعد فوجی افسران یہ کہتے سنے گئے کہ اگر ان کا بجٹ کم کیا گیا تو اُن کو دُنیا بھر میں تعینات بحری بیڑے واپس بلانا پڑیں گے، اگر ایسا ہوا تو اُس کی سپر طاقتی کا خاتمہ ہو جائے گا مگر ایسا ہونے میں بڑی اسٹرٹیجک رکاوٹ ہے۔ اس وقت امریکہ میں تشدد کی لہر سفید فام لوگوں کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ جو اوباما کے اُن کے کالے رنگ اور افریقی ملک سے اُن کا نسلی تعلق ہونے کی بنا پر صدر تسلیم نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے صدر بننے کے بعد 20 سفید فام ریاستوں نے علیحدگی کی تحریک پیش کر دی تھی۔ سفید فام لوگ بھی دہشت گردی میں ملوث ہوں گے یا اس کی شدت میں اضافہ کرتے رہیں گے، ان سفید فام لوگوں کے اندر گھس کر اسرائیلی ہمیشہ کی طرح اپنا کام کرتے رہیں گے۔ وہ مسلمان اور عیسائی دونوں کے دشمن ہیں۔ جہاں تک امریکہ کی سپر طاقتی کا معاملہ ہے، وہ اُس کو قائم رکھنے کی ہرممکن سعی کرے گا چاہے وہ فوجی بجٹ کم کرکے اپنے عوام کی معاشی حالت کو بہتر کرنے کا کام کرے مگر امریکی انتظامیہ اُس کے اشرافیہ اور اُن کے صنعت کار یہ نہیں چاہیں گے کہ جو پوزیشن اُن کو ایک صدی کی سازشوں ،جنگوں اور حکومتوں کی تبدیلی کے بعد حاصل ہوئی ہے وہ اُن کے ہاتھ سے جاتی رہے۔ اس لئے ایک خیال یہ بھی ہے اس وقت امریکہ میں دہشت گردی کی لہر آئی ہوئی ہے۔ اُس کو خود امریکی انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ بات بھی ہمارے قارئین کے علم میں ہوگی کہ امریکی معیشت جنگی سازوسامان کی صنعتوں کی پیداوار پر انحصار کرتی ہے۔ جنگیں ہوں گی تو اُن کے صنعت کاروں کو بڑے بڑے ٹھیکے ملیں گے، جس کے حصول کے لئے صدر اوباما انڈیا کے دورے پر آئے اور کہا تھا کہ انہوں نے ہزاروں افراد کی ملازمت کا انتظام کر دیا ہے مگر بعد میں امریکی صنعت کاروں میں مایوسی پھیلی وہ کھلے عام کہتے نظر آئے کہ اُن کی وہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں جو انڈیا سے باندھی تھیں۔ انڈیا نے کئی ٹھیکے روس اور فرانس کو دے دیئے جس سے امریکہ مایوس ہوا تاہم اس نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں شیعہ و سنی معاملات کو ابھار کر اور ایران کے ایٹمی طاقت کا خطرہ دکھا کر اِن خوفزدہ ممالک سے ایک سو بلین سے زیادہ اسلحہ سپلائی کے ٹھیکے حاصل کر لئے۔ دوسری طرف اس نے جنوبی بحر چین میں چینی ملکیت کے دعوے پر وہاں کے کئی ممالک میں اضطراب پیدا کر دیا۔ وہاں سے بھی بہت سے اسلحہ سپلائی کے ٹھیکے لئے۔ اس کے علاوہ، سنگاپور، فلپائن، آسٹریلیا اور جاپان میں اپنے اڈوں کو وسعت دی اور پورے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے لیا۔ شمالی کوریا کے ایٹمی دھماکے اور میزائلوں نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی۔ جاپان کو امریکہ سے پیٹریاٹ خریدنے پڑے اور دوسرے ممالک میں بھی امریکی اسلحہ کی خریداری کی مانگ بڑھ گئی۔
اگر اِس صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہم اِس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ امریکہ میں موجودہ دہشت گردی کی لہر جہاں مکافات عمل کا حصہ ہے وہاں امریکی انتظامیہ اس لہر کو دُنیا میں اپنی بالادستی قائم رکھنے اور اپنی معیشت کی بہتری کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ یہ لوگ بہت سوچ بچار کرتے ہیں، منفی حالات کو مثبت بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کا معاملے کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ امریکہ نے ہیروئن کی سپلائی کو روک کر ہیروئن سے پاک پاکستان میں 20 لاکھ افراد کو ہیروئن زدہ کر دیا۔ پاکستان سے جاکر افغانستان میں حملہ کا الزام لگتا تھا اب افغانستان سے دہشت گرد آکر پاکستانی چوکیوں پر حملے کرتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ میں موجودہ دہشت گردی کی لہر سے امریکہ کیا فوائد حاصل کرتا ہے اور کس ملک پر چڑھائی کے لئے اپنے عوام کو تیار کرتا ہے۔
تازہ ترین