لاہور ہائی کورٹ نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کے معاملے میں دو ہفتوں تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو قانونی معاونت کے لیے طلب کر لیاہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ نہ پارلیمنٹ کو کنٹرول کرتی ہے اور نہ ایگزیکٹو کو بلکہ قانون کی تشریح کرتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کو مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کے معاملے پر نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو قانونی معاونت کیلئے طلب کرلیا۔
حکومت پنجاب کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ عدلیہ کے اختیارات والا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل کا ایک ایک لفظ محتاط ہونا چاہیے، کچھ لوگوں کو بچانے کے لیے عدالت کے ساتھ کھیلنے کی کوشش نہ کریں، آپ یہ چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس سیکرٹریٹ کو سیل کر دے؟
عدالت کو بتایا گیا کہ سمری کے بغیر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، جس پر عدالت نے کہا چلیں آپ ایک پر سارا ملبہ ڈال دیں، لیکن بچے گا کوئی بھی نہیں، بیورو کریسی نے ملک کے سارے سسٹم کو تباہ کر دیا ہے، یہ کہاں سے نوٹنگ چلی ہے؟ کسی کلرک بادشاہ نے لکھی ہے۔
چیف سیکرٹری پنجاب کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے کہا کہ ہم تو آئے تھے نماز بخشوانے، لیکن یہ روزے گلے پڑ رہے ہیں۔
درخواست پر مزید سماعت دو ہفتے ملتوی کر دی گئی۔