• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے نظام مملکت کی بنیادی خامی کی نشان دہی کرتے ہوئے تمام ریاستی اداروں کو بجا طور قصور پر توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں دوسرے پر ڈالنے کے بجائے خود ادا کریں۔ منگل کو عدالت عظمیٰ میں سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف حکومت سندھ کی اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میںکہا کہ ’’ہم سے کہتے ہیں کہ پاناما لیکس پر ایکشن کیوں نہیں لیتے یا کمیشن کیوں نہیں بناتے،لیکن یہ بتائیں کہ تفتیش کی ذمہ دار انتظامیہ ہوتی ہے یا عدلیہ؟‘‘ چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ ’’کمیشن بنانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے، اسی کے پاس تحقیقات کیلئے ادارے موجود ہیں،عدالت قانون کے دائرے میں کام کرنے کی پابند ہے۔‘‘ چیف جسٹس نے موجودہ نظام کو خامیوں کے باوجود جاری رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کا جمہوری نظام لولا لنگڑا ہے لیکن ہمیں اسے چلانا ہے،پورا سسٹم خراب ہے لیکن اس میں کسی ایک شخص یا ادارے کا قصور نہیں،پورے ملک کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘‘ ملک کے نظام پر چیف جسٹس کا یہ تبصرہ بلاشبہ حقیقت پر مبنی ہے۔آئین اور جمہوری اداروں کے بار بار معطل کیے جانے کی وجہ سے سات عشروں کے بعد بھی ہمارے ملک میں جمہوریت پوری طرح مستحکم نہیں ہوسکی اور نظام مملکت میں بنیادی نقائص موجود ہیں لیکن اسے بہتر بنانے کا طریقہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے کام کرنے کا موقع دیا جائے اور سامنے آنے والی خامیوں کو دور کیا جاتا رہے۔ تمام ادارے اپنے فرائض اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خود انجام دیں اور اپنا بوجھ دوسرے اداروں پر ڈالنے سے گریز کریں۔ ایک مدت سے یہ رجحان پروان چڑھ رہا ہے کہ جو کام انتظامیہ کو کرنا چاہیے اس کی توقع عدلیہ سے کی جاتی ہے،اسی طرح قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کی ذمہ داریاں فوج کو اٹھانی پڑرہی ہیں۔ اس طریق کار کو بہرصورت مستقل نظام قرار نہیں دیا جاسکتا لہٰذا تمام اداروں کو کم سے کم مدت میں اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کے قابل بنایا جانا ضروری ہے۔
تازہ ترین