• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بطورِ صدقہ ملی ہوئی چیز کو فروخت یا ہبہ کرنے کا حکم

تفہیم المسائل

سوال: عام طور پر لوگ صدقے کی مد میں مرغی، بکرا وغیرہ مستحق کو دیتے ہیں اور وہ مستحق دیگر ضروری اشیاء کے حصول کے لیے اس مرغی، بکرے وغیرہ کو فروخت کردیتے ہیں۔ دکانداروں یا عام لوگوں کے لیے اُن چیزوں کا خریدنا جائز ہے یا نہیں؟ یا اگر کوئی اپنی مرضی سے بیچنا چاہے ، تو صدقہ کرنے والا اُسے خود واپس خرید سکتا ہے، رہنمائی فرمادیں ۔(راشد علی راؤ ، جامشورو )

جواب: جس پر کوئی چیز صدقہ کی گئی ہے، وہ اُس شے کا مالک بن جاتا ہے، لہٰذا اسے اس شے پر مالکانہ تصرُّف کا اختیار حاصل ہے ، خواہ وہ خود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس شے کا حکم بدل جاتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صحیح میں ایک باب باندھا : بَابُ إِذَا تَحَوَّلَتِ الصَّدَقَۃُ (جب صدقہ( اپنے مَصرف سے)منتقل ہوجائے)۔حدیث پاک میں ہے :(۱)ترجمہ:’’ حضرت اُمّ عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرمﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے ،آپ ﷺ نے پوچھا : کیاتمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟، انہوں نے کہا: نہیں ! مگر وہ چیز جو ہمارے پاس نُسَیبہ نے بھیجی ہے ،اس صدقہ کی بکری سے جو ان کے پاس بھیجی گئی تھی ،آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک، وہ صدقہ اپنے محل میں پہنچ چکاہے ،(صحیح بخاری:1994)‘‘۔(۲) ایک روایت میں ہے :رسول اللہ ﷺ نےحضرت عائشہؓ سے فرمایا: ہَاتِ،فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّہَاترجمہ:’’ وہ لے آؤ ، وہ بکری اپنے محل تک پہنچ چکی ہے ،(صحیح بخاری: 1446)‘‘۔ (۳) ترجمہ:’’ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں : رسول اللہ ﷺ کے پاس وہ گوشت لایاگیا جوکہ حضرت بَرِیْرَہ ؓ پر صدقہ کیا گیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ اُن پر صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے ،(صحیح بخاری:1495)‘‘۔جو گوشت حضرت بریرہؓ پر صدقہ کیا گیا تھا ،جب وہ رسول اللہ ﷺ کو ہدیہ کیاگیا توپھر آپﷺ کے لیے اس کا کھانا جائز ہوگیا ۔علامہ ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال مالکی قرطبیؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان : ’’وہ بکری لے آؤ ! وہ اپنے مقام تک پہنچ چکی ہے( یعنی حضرت نُسَیْبَہ کی مِلک میں آنے کے بعد )اس کا حکم صدقہ سے ہدیہ میں بدل چکاہے، جیسے حضرت بَرِیْرَہؓنے(جوصدقے کی مستحق تھیں، صدقے کا) گوشت حضرت عائشہ ؓکو ہدیہ کردیاتھا (تو آپ ﷺ نے فرمایاتھا:)’’وہ اُن پر صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے ‘‘، چنانچہ اس کے بعد مصنف نے حدیث کا عنوان یہ قائم کیا:’’ جب صدقہ اپنے حکم سے پِھر جائے ‘‘،(شرح ابن بطال ، جلد: 3، ص:444)‘‘۔

ہماری نظر میں سب سے بہترین صدقہ کسی ضرورت مند کی حاجت کو پورا کردینا ہے ،اگر کسی شخص کو روٹی کی ضرورت ہے اور آپ اسے کپڑے خرید کردیتے ہیں ،تو ممکن ہے کہ وہ اُن کپڑوں کو فروخت کرکے روٹی حاصل کرے یا اگر کسی شخص کے پاس صدقہ دی ہوئی ایک ہی جنس کی چیز زیادہ مقدار میں جمع ہوجائے تو وہ اسے یقیناً فروخت کرے گا ، جیساکہ حالیہ لاک ڈاؤن کے دوران بعض فلاحی ورفاہی اداروں کی جانب سے راشن کی غیر منصفانہ تقسیم اور راشن لینے والوں کا اُسے دکانداروں کو فروخت کرنا ،دیکھنے میں آیا اور دوسری طرف سفید پوش ضرورت مند محروم رہے۔پیشہ ور لوگ سارا دن راشن جمع کرتے اور شام کو انہیں دکانداروں کے ہاتھ فروخت کردیا کرتے تھے۔

حدیث پاک میں بلاضرورت سوال کرنے پر سخت وعید آئی ہے : (۱)ترجمہ:’’آدمی سوال کرتا رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اُس کے چہرے پر گوشت کا ٹکڑا نہ ہوگا(یعنی نہایت بے آبرو ہوکرآئے گا)،(شعب الایمان :3233)‘‘۔(۲)’’حضرت عبداﷲبن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اﷲﷺ نے فرمایا:جو شخص لوگوں سے سوال کرے، حالانکہ نہ وہ فاقہ زدہ ہے اور نہ اس کے اتنے بال بچے ہیں جن کی (کفالت کی)طاقت نہیں رکھتا، تو قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اُس کے منہ پر گوشت نہ ہوگا،(شعب الایمان : 3250)‘‘۔(۳)ترجمہ:’’جس پر نہ فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں کہ جن کی (کفالت کی)طاقت نہیں اور سوال کا دروازہ کھولے ،تواﷲتعالیٰ اُس پر ایسی جگہ سے فاقہ کا دروازہ کھول دے گا، جو اس کے گمان میں بھی نہیں ہوگا،(شعب الایمان : 3250)‘‘۔

(… جاری ہے…)

تازہ ترین