• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے پھیلائو اور تباہ کاری نے عالمی سیاست کو سُکیڑ کے رکھ دیا ہے۔دنیا سے آنے والی بڑی سے بڑی خبر بھی اِسی کے شور میں دَب کر رہ گئی ہے، مگر ہمیں اِس صُورتِ حال کا اندازہ اِس لیے نہیں ہو رہا کہ ہم نے کورونا وائرس کو اسمارٹ لاک ڈائون سے ڈیل کیا ہے۔ دنیا کی واحد سُپر پاور کی سب سے طاقت وَر شخصیت،یعنی امریکا کے صدر کے انتخاب کے لیے، جس کی پولنگ نومبر میں ہوگی، ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے 75 سالہ جوبائیڈن صدارتی اُمیدوار اور بھارتی نژاد کمالہ ہیرس نائب صدر کی اُمیدوار ہیں ، جب کہ ری پبلکن پارٹی کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیک پینس امیدوار ہیں۔ امریکی الیکشن کے ساتھ ہی عالمی سیاست میں بھی ہلچل شروع ہوچُکی ہے، جس کا پہلا ٹریلر دنیا نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کی صُورت دیکھا۔

افغان امن بات چیت بھی اُسی طرح چل رہی ہے، جیسے اُس کے سرپرست چاہتے ہیں۔دھیرے دھیرے ہی سہی، لیکن تقریباً تمام اسٹیک ہولڈر ایک پیج پر آچُکے ہیں، جن میں افغان حکومت، طالبان اور لویہ جرگہ شامل ہیں۔دنیا کی بدلتی سیاست ہماری خارجہ پالیسی پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔ظاہر ہے، وزارتِ خارجہ کے حکّام پالیسی کے لحاظ سے ایڈ جسٹمنٹ کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن گزشتہ ماہ ہمیں کئی ایسے جھٹکے بھی برداشت کرنے پڑے کہ بہت سے امور اور طے شدہ پالیسیز پر ازسرِ نو غور کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

کورونا کے علاوہ کچھ بھی ایسا نہیں، جو اچانک ظہورر پذیر ہوا ہو، اِسی لیے ماہرین بجا طور پر نشان دہی کر رہے ہیں کہ ہماری خارجہ پالیسی میں شروع ہی سے اِس بات کی گنجائش ہونی چاہیے تھی کہ جب عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیلیاں رُونما ہوں، تو ہم اُن کے مطابق مُلکی خارجہ پالیسی ایڈجسٹ کر سکیں اور کسی بھی طرح دنیا تک یہ تاثر نہ جانے پائے کہ ہمارے خارجہ امور کے ماہرین کسی تبدیلی کے لیے تیار نہ تھے اور مُلک کو اچانک فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔

کیا ہمیں معلوم نہ تھا کہ عرب ممالک کی سوچ ایران کے حوالے سے کس طرف کا رُخ کر رہی ہے؟ وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی کا دورۂ چین، جس میں ہونے والے پاک،چین اسٹریٹیجک ڈائیلاگ نے خاصی اہمیت اختیار کر لی ہے، نہایت اہمیت کا حامل رہا۔ اِس دَورے کے دَوران چین نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سالمیت اور کشمیر میں کسی بھی یک طرفہ تبدیلی کی مخالفت کا یقین دِلایا۔بیجنگ کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی کشمیر تنازعے کا حل نکالنا ہوگا، کیوں کہ یہ تقسیمِ ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔بلاشبہ ،یہ یقین دہانیاں اسلام آبادکے لیے تقویت کا باعث ہیں اور دنیا کو بھی پاک، چین دوستی کے حوالے سے ایک واضح پیغام گیا ہے۔

طاقت کا بدلتا توازن اور ہماری خارجہ پالیسی
امریکی صدارتی اُمیدوار، ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن

بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد، اِس کی جیو اسٹریٹیجک پوزیشن ہے۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیجیے کہ پاکستان کے محلِ وقوع کو اِس کی خارجہ پالیسی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ناقدین کے مطابق پاکستان نے اپنی ضروریات سے زیادہ اپنی جغرافیائی پوزیشن کو اہمیت دی، اِسی لے ہمارے تعلقات بھی اِسی کے گرد گھومتے ہیں۔ ہم وہ معروف جملہ بار بار اور بڑے تیقّن سے دُہراتے ہیں کہ’’ سب کچھ تبدیل ہوسکتا ہے، لیکن سرحدیں تبدیل نہیں ہوتیں۔‘‘ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ آدھا سچ ہے، پورا نہیں۔اُن کے مطابق، اگر یہ مکمل سچ ہوتا، تو پھر جاپان نے اپنی ترقّی کے لیے معاشی پالیسی کی بنیاد امریکا، مغربی ممالک، عرب اور یورپ سے بہتر تعلقات پر کیوں رکھی؟نیز، ہماری سرحدوں سے ملے چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا کیوں ہے؟ یورپ اس کے مال کی بڑی منڈی کیوں بنا؟ پھر یہ بھی کہ افریقا اور عرب ممالک پر اس کا تجارتی فوکس کیوں ہے؟ اور عرب ممالک اپنے تیل کے ذریعے اُس کی ترقّی کی رفتار کیوں تیز کر رہے ہیں؟ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، چین کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 34 سو بلین ڈالرز سے زاید ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں، لیکن جہاں یہ خوشی کی بات ہے، وہیں ماہرین جانتے کہ ڈالر کی قدر میں ایک فی صد کمی بھی اس کے اِن ذخائر کو کیا نقصان پہنچا سکتی ہے؟ تجارت کو’’ ایکسٹرا ٹیری ٹوریل ریلیشنز‘‘ یعنی سرحدوں سے باہر کے باہمی تعلقات کے طور پر لیا جاتا ہے اور اسی پر گلوبل ویلیج کی بنیاد ہے۔ کوئی بھی مُلک اس گلوبل ویلیج سے باہر ہونے کی جرات نہیں کرسکتا، اگر اُسے اپنی معیشت اور خوش حالی عزیز ہے۔ اِسی لیے چین کی موجودہ قومی پالیسی کی بنیاد یہی اقتصادی پالیسی ہے۔ ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ کوئی فوجی منصوبہ نہیں، بلکہ اس کا ویژن روڈ، سمندر اور فضائی لنک قائم کرکے دنیا کی تجارت کو یک جا کرنا ہے۔

یہ منصوبہ صدر، شی جن پنگ کا فلیگ شپ ہے اور اسی کے بل پر وہ چین کی اقتصادی برتری قائم کرنا چاہتے ہیں۔تاہم، وہ کسی مسابقت کی بجائے تعاون کو بنیاد بنارہے ہیں، کیوں کہ اِسی طرح اِس منصوبے میں بے پناہ سرمایہ کاری، وقت اور انسانی وسائل کو کام میں لایا جاسکتا ہے۔چین انفرااسٹرکچر تعمیر کرے گا اور باقی شراکت دار ممالک باہم مربوط ہوکر فوائد سمیٹیں گے۔درحقیقت یہ ایک سُپر اقتصادی منصوبہ ہے۔اِس سے قبل جاپان، جرمنی اور یورپی یونین نے بھی ایسی ہی کوششیں کیں، لیکن وہ چھوٹے پیمانے پر تھیں۔اُن میں صرف علاقائی تعاون پر فوکس کیا گیا تھا۔ چین کے اِس منصوبے سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ بین الاقوامی امور کے ماہرین اِس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ دنیا نے ایک دوسرے پر برتری کے لیے صدیوں جنگیں کر کے دیکھ لیں۔ان جنگوں کے نتیجے میں ہارنے والا تو تباہ ہوا ہی، فاتح کے حصّے میں بھی بربادی آئی۔گزشتہ صدی کی عالمی جنگوں نے تو اس نتیجے پر گویا مُہر ثبت کردی۔ تمام بڑی عالمی طاقتیں اِس نتیجے کو اچھی طرح سمجھ چُکی ہیں۔وہاں کے عوام، قیادت اور اجتماعی دانش اِس حوالے سے ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔کیا کسی جاپانی نے کبھی کہا کہ وہ امریکا سے ایٹم بم گرانے کا بدلہ لے گا؟کیا چین، جاپان کے گزشتہ صدی کے قبضے اور ظلم کا ہتھیاروں سے جواب دینا چاہتا ہے؟ کیا جرمنی ماضی کے انتقام کی باتیں کرتا ہے؟ ہاں! ان ممالک میں بھی بڑے مقابلے جاری ہیں، لیکن یہ جنگیں اقتصادی میدانوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ 

مسلم دنیا میں اِس بات کا سب سے پہلے ادراک ملائیشیا کے رہنما، مہاتیر محمّد کو ہوا، جنھوں نے جنوب مشرقی ایشیا اور جاپان سے سبق سیکھا۔مشرقِ وسطیٰ میں ایران، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، کویت اور لیبیا نے تیل کی دولت سے اسی طرح کے کام لیے۔تُرکی نے یہ پالیسی اردوان کے پہلے تین ادوار میں اپنائی، جب وہ وزیرِ اعظم تھے۔اس دوارن جنگیں تو ہوئیں، لیکن محدود رہیں۔ کچھ عرصے کے لیے کسی نے بھی مُلک اور اپنے عوام کی خوش حالی کو دائو پر نہ لگایا۔یہ باتیں انقلابی اور تحریکی افراد کو مشکل ہی سے ہضم ہوں گی، لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انقلابی رہنما مُلکی ترقّی اور استحکام میں کم ہی کام یاب رہے ہیں۔خود چین میں مائو سے ڈینگ زیاؤ پنگ تک کے سفر میں اکتیس سال لگے، جب ڈینگ نے اعلان کیا کہ وہ کسی بھی پالیسی کو چین کی اقتصادی پالیسی کے آڑے نہیں آنے دیں گے۔یہ آواز آج ہر چینی کا نعرہ بن چُکی ہے اور اِسی لیے وہ مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔چین کے بھی کئی ممالک کے ساتھ تنازعات ہیں۔ لداخ،ہانگ کانگ، تائیوان، نائین ڈاٹ جزائر کے معاملات اور جاپان سے ملنے والے پرانے زخم، لیکن کوئی بھی تنازع اُس کی تجارتی و اقتصادی پالیسی میں رکاوٹ نہیں بن سکا۔کیوں؟ اِس لیے کہ موجودہ دَور میں برتری کی کلید یہی ہے۔ مِصر کے جمال ناصر،کیوبا کے کاسترو، شام کے اسد،عراق کے صدام یا لیبیا کے قذافی جیسے جوشیلے انقلابیوں کا جائزہ لیں، تو اُن کی باتیں جذبات تو خُوب گرماتی ہیں، لیکن اُن کے مُمالک مفلس، قلّاش اور قرضوں کے محتاج اور قوم یک جہتی سے محروم ہی رہی۔وہ مختلف سازشی نظریات کی آڑ میں اپنی بیڈ گورنینس اور ناکام پالیسیز کے جواز تراشتے رہے۔ 

مسلم لیڈر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اُنھیں سات خون معاف ہیں، بلکہ اُنھیں تو جواب دہی کا سب سے زیادہ خوف ہونا چاہیے، جیسا کہ ایک زمانے کے مسلم حکم ران اللہ کے سامنے جواب دہی کے احساس سے لرزتے رہتے تھے۔ ان کے لیے اقتدار کسی عیاشی کا نام نہیں، بلکہ ایک آزمائش تھی۔بہرکیف، تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی نے عرب دنیا کو تو بدلتی دنیا کا احساس دِلا دیا ہے۔محمّد بن سلمان کے اقدامات اِسی سوچ کی نشان دہی کر رہے ہیں۔تُرکی اور ایران کی لیڈرشپ شاید اپنے وعدوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ایسے میں پاکستان کے لیے خارجہ پالیسی کے آپشن محدود ہو جاتے ہیں، جب مسلم دنیا کی لیڈررشپ جارحانہ پالیسیز اختیار کرتی ہے۔شام، یمن، لیبیا، عراق، لبنان اور ایران سب ہی طرح طرح کے چیلنجز کا سبب بنتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ایک طرف کشمیر میں بھارتی جارحیت اور دوسری جانب، فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ، دونوں میں پاکستان کی ناقابلِ تغیّر کمٹمنٹ ہے۔کوئی حکومت اور لیڈرشپ اس قومی بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ہے، لیکن اگر اطراف میں نظر دوڑائیں، تو ہر مُلک اپنے مفادات کے مطابق چل رہا ہے۔ایران، امریکا کا دشمن ہے، لیکن اُس نے تین سال قبل نیوکلیئر ڈیل سے اربوں ڈالرز کے فوائد اُٹھائے۔تُرکی، یورپی یونین میں شمولیت کا خواہش مند اور نیٹو کا ممبر ہے۔

نیز، اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔وہ شام میں جمہوریت کا سب سے بڑا حامی رہا، لیکن اب اسد حکومت تسلیم کرلی۔ کل عرب دنیا اسرائیل کو ماننے کو تیار نہ تھی اور اس سے چار جنگیں لڑیں، لیکن آج یو اے ای اُسے تسلیم کرچُکا ہے اور مزید بھی بہت کچھ ہونے کو ہے۔کیا اِن ممالک نے اپنی پالیسیز ہم سے پوچھ کر بنائیں؟ ہم سے کوئی مشاورت کی؟ ہم سب کا احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے، لیکن پاکستان کے مفادات سب سے اہم ہیں، خاص طور پر ہم جن کم زور ترین معاشی حالات سے گزر رہے ہیں، اُن میں تو اقتصادی پالیسی ہی کو اوّلیت دینا ہوگی۔وزیرِ اعظم اور اُن کی ٹیم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور جولائی میں یورپ سے آنے والے زرِ مبادلہ کی بنیاد پر قومی معیشت میں بہتری کا اعلان کیا ہے، مگر اے کاش! ایسا ہی ہوتا۔ ناقدین پوچھ رہے ہیں کہ آخر چار ماہ میں ایسا کیا ہوگیا کہ کل تو لاک ڈائون کے معاملے پر وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ’’ ہم غریب ہیں۔ہمارے پاس وسائل ہیں، نہ سہولتیں۔قرضوں کے بوجھ سے لَدے ہوئے ہیں۔ ‘‘اِس خوف کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ کہیں دو ماہ کا لاک ڈائون بہت سے لوگوں کے بھوک سے مرنے کا سبب نہ بن جائےاور آج یک دَم سب کچھ اچھا ہوگیا۔ 

ماہرین حالات کی ایک مختلف تصویر بھی دِکھاتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین ترقّی کی شرح کو مُلک کی معیشت میں بہتری کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر مُلکی اور غیر مُلکی ماہرین متفّق ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ منفی اعشاریہ4 یا دو تک کی معیشت برآمدات کو سہار سکے گی اور نہ وہ ریوینو لاسکے گی، جس کی مُلک کو اشد ضرورت ہے۔پھر جو 29 ارب ڈالرز کے قرضے حکومت نے لیے ہیں، ان میں سے زیادہ تر تو سود کی واپسی میں چلے جاتے ہیں۔قرضے اُتارنے کے لیے مزید قرضے لینا پڑ رہے ہیں۔علاوہ ازیں، منہگائی اور افراطِ زر نے عوام کا بُرا حال کردیا ،قوّتِ خرید نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ مُلک کا کل قرضہ مجموعی پیداوار کا 84 فی صد ہے۔ اِس لیے یہ خطرے کی بات ہے۔اصل مسئلہ اُن قرضوں کی واپسی کے درست انتظامات کا ہونا ہے ۔اِس ضمن میں ماہرین دو طریقے بتاتے ہیں۔پہلا ٹیکس جمع کرنے کا نظام اور دوسرا منافع بخش منصوبوں کا جاری رہنا۔ ہمیں فخر ہے کہ مُلکی آبادی کا60 فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن یہی خوش قسمتی اُس وقت بوجھ بن سکتی ہے، جب ان کے لیے روز گار کے مواقع نہ ہوں۔ 

حکومت کو یہ کریڈٹ تو دے سکتے ہیں کہ وہ اب معیشت پر بہت زیادہ فوکس کر رہی ہے۔ روز مثبت خبریں آرہی ہیں، جن پر بھروسا نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن علاقے کے تیزی سے بدلتے حالات دیکھ کر بین الاقومی امور کے ماہرین بار بار اِس اَمر پر بھی زور دے رہے ہیں کہ عوام کو ایک طویل المیعاد قومی وژن دے دیا جائے تاکہ وہ اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری توانائیاں لگا دیں۔نیز، جیو اسٹرٹیجک توازن کو مدّنظر رکھتے ہوئے ایک ایسی خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے، جس کا بنیادی مقصد مُلک و قوم کو معاشی طور پر مضبوط کرنا ہو۔ نوجوان آبادی روزگار حاصل کرے اور مُلک ترقّی کی راہ پر گام زن ہوجائے۔تنازعات اور سرحدی معاملات اپنی جگہ، لیکن حکم ران، عوام کو اِس قابل تو کردیں کہ وہ اپنے مُلک کی ترقّی و خوش حالی کا خواب پورا کرسکیں۔ یہ ایسی خارجہ پالیسی ہو، جس میں حالات کے مطابق لچک کی گنجائش ہو۔اسے سیاست اور دوسرے اسی نوعیت کے عوامل سے بلند رکھا جائے، وگرنہ بار بار کا ٹکراؤ عوام کی سمت کھوٹی کردے گا۔ یہ ایک ایسی قومی پالیسی ہو کہ کوئی بھی اُس سے ہٹ نہ سکے،لیکن یہ کام دھونس، دھمکی، طاقت یا سیاست سے نہیں ہوگا۔

تازہ ترین