• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے ایوان کے اندر (اِن ہائوس) تبدیلی کے بارے میں قیاس آرائیاں ہورہی ہیں۔ اِن قیاس آرائیوں میں شدت اُس وقت آئی،جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کراچی آکر پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی۔

قیاس آرائیوں کو مزید تقویت اُس وقت ملی،جب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) (بی این پی ایم) کے صدر سردار اختر جان مینگل نے مذکورہ بالا ملاقات کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سے فون پر رابطہ کیا۔ واضح رہے کہ بی این پی (ایم ) وزیراعظم عمران خان کی اتحادی جماعت ہے اور وہ حکومت سے ناراضی کا اکثر اوقات اظہار کرتی رہتی ہے اور اپوزیشن سے بھی رابطے میں رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں اِن ہائوس تبدیلی ممکن ہے؟

میاں شہباز شریف کی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کے بعد ’’باخبر ذرائع‘‘ نے میڈیا کو یہ خبر جاری کی۔ باخبر ذرائع کون ہیں؟ یقیناً پیپلز پارٹی کے ذرائع ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں جب میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’’اب ملک کو نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے‘‘ تو فوراً بعد بلاول بھٹو زرداری نے اُن سے اختلاف کیا اور کہاکہ موجودہ حالات میں ملک نئے انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ کورونا کی وجہ سے انتخابی عمل ممکن نہیں ہے۔

اِن ہائوس تبدیلی ہونی چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس بات سے واضح ہوگیا تھا کہ پیپلز پارٹی اِن ہائوس تبدیلی چاہتی ہے لیکن یہ تبدیلی کیسے ہوگی؟ ’’باخبر ذرائع‘‘ نے یہ نہیں بتایا کہ مذکورہ ملاقات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے مابین جو گفتگو ہوئی۔

اُس میں اس امر پر بھی اتفاق پایا جاتا تھا کہ قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر جو سیاسی جماعتیں وزیراعظم عمران خان کی حمایت کرتی ہیں‘ اُنہیں کنٹرول کہیں اور سے کیا جاتا ہے۔ اِن ہائوس تبدیلی کے لیے اُن سے اگر رابطے بھی کیے جائیں تو اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسا اتفاق تھا‘ جس کا گفتگو میں اگرچہ کھل کر اظہار نہیں کیا جارہا تھا لیکن اسی کی بنیاد پر گفتگو آگے چلتی رہی۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس امر کا ادراک ہے کہ تحریک انصاف کی دیگر اتحادی جماعتیں کیوں اور کن حالات میں وزیراعظم عمران خان کی حمایت کررہی ہیں۔ بلوچستان کی پولیٹکل کیمسٹری کے بارے میں سب کو معلوم ہے۔ وہاں اگر کسی سیاسی جماعت یا فرد کو کوئی نشست انتخابات میں مل جائے تو یہ اس کے لیے غنیمت ہے۔ بلوچستان کے سیاسی لوگوں کے لیے اپنی مرضی کا سیاسی فیصلہ کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔

سردار اختر جان مینگل شروع دن سے ہی تحریک انصاف کی حکومت کے بارے میں تحفظات کا شکار رہے ہیں لیکن وہ سیاسی طور پر وہیں کھڑے ہیں‘ جہاں 2018ء کے عام انتخابات کے بعد کھڑے تھے۔ یہی صورت حال ایم کیو ایم کی ہے۔ کراچی میں اُس کی نشستیں تحریک انصاف کے پاس چلی گئیں اور تحریک انصاف اُس کی حقیقی سیاسی حریف ہے لیکن اس وقت دونوں جماعتوں کا ایک دوسرے سے زیادہ حلیف کوئی اور نہیں ہے۔

اپوزیشن کی دونوں جماعتوں کو اس بات کا علم ہے کہ اِن ہائوس تبدیلی اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہاں مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں یہ ضرور سوچتی ہوں گی کہ آخر بلاول بھٹو زرداری کس اُمید پر اِن ہائوس تبدیلی کی بات کررہے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی یہ بھی نہیں چاہتی کہ وزیراعظم عمران خان دبائو بڑھنے کی صورت میں اسمبلی تحلیل کردیں کیونکہ پیپلز پارٹی فوری انتخابات کی حامی نہیں ہے۔ وہ موجودہ اسمبلیوں کی باقی مدت میں اِن ہائوس تبدیلی کے ذریعہ نیا وزیراعظم لانے کی حامی ہے بشرطیکہ وزیراعظم کی تبدیلی کے عمل کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہ ہوں۔ یہ کام ظاہر ہے صرف وہ قوتیں کرسکتی ہیں۔

جو پارلیمنٹ سے باہر زیادہ طاقتور ہیں ورنہ وزیراعظم عمران خان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار آئین نے دیا ہے۔ یہ اختیار استعمال کرنے سے اُنہیں روکنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو خدشہ ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں نئے انتخابات وقت پر نہیں ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) اس بات کی حامی ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات ہوں اور شاید مسلم لیگ (ن) میں میاں شہباز شریف اس بات کے زیادہ حامی ہیں۔

ان حالات میں یہ واضح ہے کہ ایک طرف اِن ہائوس تبدیلی اپوزیشن کے بس میں نہیں ہے اور جن کے بس میں ہے‘ اُن کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف اِن ہائوس تبدیلی لانے کی کوششوں میں وہ اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچا سکیں اور دوسری بات یہ ہے کہ فوری انتخابات کے حوالے سے بھی اپوزیشن کی جماعتیں تقسیم ہیں۔

اُن کے پاس صرف ایک ہی آپشن اس وقت موجود ہے کہ وہ حکومت کے خلاف کسی مشترکہ سیاسی ایجنڈے پر سیاسی تحریک کیلئے کام کریں اور اس کا فائدہ آئندہ عام انتخابات میں حاصل کریں لیکن مشترکہ سیاسی ایجنڈا کے تحت سیاسی تحریک شروع ہونے کے بھی امکانات کم نظر آرہے ہیں۔

اپوزیشن اس صورت حال سے اس لیے دوچار ہے کہ وہ عوام کی بجائے کہیں اور دیکھتی ہے‘ اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے اہداف ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ساری جماعتیں کسی حقیقی عوامی سیاسی تحریک کی متحمل بھی نہیں ہوسکتی ہیں۔ ورنہ عوام میں سیاسی بے چینی عروج پر ہے۔

تازہ ترین