• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سول سروس میں سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی معمول بن گئی

اسلام آباد (انصار عباسی) اگر سب نہیں تو وفاقی اور صوبائی سطح پر ہونے والی زیادہ تر قبل از وقت ٹرانسفر اور تقرریاں سپریم کورٹ کے انیتا تراب کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوتی ہیں اور حال ہی میں آئی جی پنجاب کو عہدے سے ہٹائے جانے کا واقعہ اس سے الگ نہیں۔

بیوروکریٹک ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تقرری و تبادلے کے حوالے سے کوئی حکومت سپریم کورٹ کے طے کردہ ضابطوں پر عمل نہیں کر رہی تاکہ ان کے عہدے کی معیاد کا تحفظ کیا جا سکے اور بیوروکریسی کو سیاست سے بچایا جا سکے۔

پنجاب میں صورتحال زیادہ خراب ہے جہاں دو سال میں پانچ چیف سیکریٹری اور پانچ آئی جی پولیس تبدیل کیے جا چکے ہیں جبکہ صوبائی محکموں میں ہر تین سے چار میں سیکریٹری تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ بمشکل ہی کسی معاملے میں قبل از وقت تبادلے کیلئے تحریری طور پر وجوہات بتائی جاتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد کو تحفظ دیا تھا اور حکم دیا تھا کہ سرکاری ملازمین کے عہدے کی معیاد تبدیل نہیں کی جا سکتی تاوقتیکہ کوئی ٹھوس وجہ موجود ہو اور یہ وجوہات تحریری طور پر بیان کی جائیں۔

سپریم کورٹ کے مطابق، ان وجوہات کا عدالتی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ عمومی طور پر حکومتیں اصرار کرتی ہیں کہ کسی بھی افسر کو کسی بھی وقت اس کے عہدے سے تبدیل کرنا حکومت کا استحقاق ہے لیکن سپریم کورٹ نے انیتا تراب کیس میں کہا تھا کہ تقرریاں، برخاستگی اور ترقی کا معاملہ قانون کے مطابق ہونا چاہئے اور اس میں طے شدہ ضوابط کا خیال رکھنا چاہئے اور ایسے معاملات جہاں قانون موجود نہیں اور وہاں استحقاق استعمال ہوتا ہے تو ایسے میں استحقاق کو شفاف، منطقی اور منظم طریقے سے استعمال کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ استحقاق عوامی مفاد میں استعمال کیا جائے۔

اکثر و بیشتر ہونے والے تبادلے اور تقرریاں سرکاری ملازمین کی کارکردگی اور استعداد کو بری طرح متاثر کرتی ہیں اور نتیجتاً طرز حکمرانی ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جاتی ہے۔ پنجاب میں شاید ہی کوئی ایسا محکمہ ہوگا جہاں اعلیٰ سطح پر یکے بعد دیگرے تبدیلیاں نہ کی گئی ہوں۔ گندم کے بحران کے حوالے سے ایف آئی اے کی حالیہ رپورٹ میں بھی یہی حوالہ دیا گیا ہے کہ محکمہ خوراک میں متعدد مرتبہ کی گئی تبدیلیاں بحران پیدا ہونے کی بڑی وجہ ہیں۔

انیتا تراب کیس میں سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل اصول طے کر دیے تھے تاکہ سرکاری ملازمین کو سیاست سے بچایا جا سکے

۱)تقرری، عہدے سے ہٹانے اور ترقی کا عمل قانون اور اس کے تحت بنائے گئے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے، جہاں قانون اور اصول موجود نہ ہو وہاں صوابدید کے مطابق فیصلہ کیا جائے، صوابدیدی اختیار کو منظم انداز میں، شفاف طریقے سے اور موزوں انداز سے اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جائے۔

۲) جب کسی بھی عہدے کیلئے قانون کے مطابق مدت مقرر کی گئی اور اس کے تحت اصول طے کر دیے گئے ہیں، اس مدت کا احترام کرنا ہوگا اور اس میں صرف ٹھوس وجوہات کے تحت ہی تبدیلی کی جا سکے گی، ان وجوہات کو تحریری طور پر بتانا ہوگا جن پر عدالتیں نظرثانی کر سکتی ہیں۔

۳) سرکاری ملازمین کا پہلا فرض اور وفاداری قانون اور آئین کے ساتھ ہے۔ انہیں اعلیٰ افسران کے غیر قانونی احکامات ماننے کی ضرورت نہیں، ساتھ ہی ایسے احکامات ماننے کی بھی ضرورت نہیں جو طے شدہ طریقہ کار، اصولوں اور آئین سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ایسی صورت میں سرکاری ملازمین اپنی رائے تحریری کریں اور اگر ضروری ہو تو ایسے احکامات کی مخالفت کریں۔

۴) افسران کو صرف ٹھوس وجوہات پر ہی او ایس ڈی لگایا جائے گا، وجوہات تحریری طور پر پیش کی جائیں گی جن پر عدالتیں نظر ثانی کر سکتی ہیں۔ اگر کسی افسر کو او ایس ڈی لگا بھی دیا گیا ہو تو اس کا دورانیہ کم سے کم مدت کا ہوگا اور اگر اس کیخلاف انضباطی انکوائری جاری ہے تو یہ جلد از جلد مکمل کی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسے اس بات کا ادراک ہے کہ مذکورہ بالا معاملات فیصلہ سازی اور ریاست کی انتظامی مشینری سے متعلق ہیں، ہم نے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت کی نشاندہی کی ہے کہ عہدے کی معیاد، اپائنٹمنٹ، ترقی اور ٹرانسفر کے متعلق فیصلے اصولوں کے مطابق رہیں نہ کہ ایسے صوابدیدی اختیارات کے مطابق جن میں کسی طرح کی مداخلت نہیں ہو سکتی یا نظر ثانی نہیں ہو سکتی۔

سپریم کورٹ کی ہدایت پر فیصلے کی نقول وفاقی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، صوبائی چیف سیکریٹریز، کمشنر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری اور تمام وفاقی و صوبائی محکموں کے سیکریٹریز کو بھجوائی گئی تھیں۔ تاہم، عمومی طور پر اس تاریخی فیصلے کو متعلقہ حکام نظر انداز کر دیتے ہیں۔

تازہ ترین