• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکر الحمدللہ! یہ تو اب واضح اور خوش کن حقیقت ہے کہ کراچی عشروں کی ’’پارلیمانی وحشت و دہشت‘‘ سے آزاد ہو کر شیئرڈ منتخب نمائندگی کے قابلِ قبول دائرے میں آ گیا ہے لیکن (وائے بدنصیبی) تیز چلتی آندھی کی طرح یہ بھی عیاں ہے کہ شہرِ عظیم پہلے والے کراچی کے طور پر بحال نہیں ہو پا رہا، جب اسے منی پاکستان کا نام دیا گیا اور جب آنے والوں کے لئے یہ عروس البلاد کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ ان شاء اللہ ویسے ہی بحال ہو تو جائے گا لیکن ملکی اور خود کراچی کی گنجلک صورتحال اب ’’بتدریج‘‘ کی متحمل نہیں، یہ کام کراچی کے شہریوں کی سیاسی وابستگیوں سے بالا، اجتماعی عزم و شعور اور تحریک جاریہ سے فوری اور تیز تر مطلوب ہے۔ بخدا اب کسی بھی جماعت کے ووٹ لے کر کراچی کی منتخب نمائندگی کا اعزاز حاصل کرنے والوں سے کہیں زیادہ مقدم و محترم اور توجہ کے مستحق ان کے بنیادی سہولتوں سے محروم کردیے گئے، وہ پریشان حال ووٹرز ہیں جنہیں اب بھی رولنگ اسٹون بنانے کی ’’سیاسی‘‘ ذہنیت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ حکومت، حکومت بن پا رہی ہے نہ اپوزیشن، اپوزیشن اور نہ کراچی کے صابر و شاکر اور عاقل و بالغ شہریوں کو ان کی قوم و ملک کے لئے بےحد منافع بخش اجتماعی کردار کے باوجود ان کو برباد کیا گیا بنیادی سہولتوں کا نظام اور غصب شدہ حقوق لوٹائے جا رہے ہیں۔

گزرے منتخب لیکن پورے ملک میں ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے حامل عشرے کی تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ فقط انتخابی مہم اور برے وقت میں ووٹ کو عزت دینے اور یاد کرنے والوں نے این آر او کے احسان عظیم سے پھر ہاتھ لگے عشرہ اقتدار کو ووٹر کی توقیر اور کفارے کا عشرہ بنانے کے بجائے ایک بار پھر پورے منتخب دور کو پہلے سے بڑھ کر دھما چوکڑی کا عشرہ ہی بنایا۔ وکلا تحریک کے نتیجے میں عدلیہ کی مطلوب حاصل آزادی سے دو منتخب وزرائے اعظم بھی کھوئے، لیکن آئینی مدت پوری کرنے کے لئے اقتدار جاری رہنےپر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انداز حکمرانی جوں کا توں رہا۔ بات چونکہ پریشان حال کراچی کی ہو رہی ہے، جہاں کرپشن اور حکومتی بےحسی کے خطرناک آئی کونز، لاقانونیت سے بنی خستہ حال خطرناک رہائشی عمارتیں طوفانی بارشوں کے بعد از اثرات سے مظلوم رہائشیوں کے ساتھ منہدم ہورہی ہیں، سو ادھر ہی آتے ہیں۔

کراچی کا پارلیمانی سائز ملکی شہری نمائندگی میں سب سے بڑا ہے۔ اس میں بڑھتی اور منتقل ہوتی آبادی کے ساتھ اور وسعت آئے گی کہ فاصلوں سے نئے شہر آباد کرنے کا ہوش نہ پہلے کسی حکومت کو آیا اور موجودہ کراچی سے بھی کوئی عبرت پکڑتا نظر نہیں آ رہا۔اس مہلک صورتحال پرکوئی قانون سازی کی سوچ بھی نہیں ہے۔ الٹا لاہور کو کراچی (گھمبیر) بنانے کی منصوبہ بندی ہوگئی ہے۔یہ تو مطلوب گورننس کا متقاضی ہے جو ہنوز دور است۔ سنہری موقع تو پی پی کو ملا تھا جب کراچی کے ووٹرز آئینی مدت ختم ہونے کے باوجود ملازمتوں میں کوٹہ پالیسی کے بدستور جاری رہنے سے سخت مایوس ہو کر مجبوراً منتخب سیاسی مافیا کے ہتھے چڑھ گئے، وہ (پی پی) یکدم مبنی بر انصاف پالیسی متعارف کرکے اور شہر و دیہات کی مطلوب اصلاحات سے دیہات کو حقیقی معنوں میں اور بڑی حد تک کراچی کی اس مایوسی کو سیاسی انداز سے ہی ختم کرتی، خصوصاً جبکہ لاہور میں اسے مقدم قومی جماعت بنانے والا سیاسی قلعہ بھی برسوں قبل مسمار ہو چکا تھا۔ سندھ کے دیہات کے کچلے بنیادی حقوق کی حقیقی فراہمی اور کراچی کو آئین کی روح کے مطابق انصاف کی فراہمی اور مرکزی گورننس میں شفافیت یقینی، پی پی کی قومی جماعت اور چاروں صوبوں کی زنجیر والے قابل فخر امتیاز کو بحال کردیتی۔ سندھ کے مکمل اور وفاق کے نصف اقتدار کے دس سال اس کام کےلئے شہر عظیم میں سیاسی و پارلیمانی جگہ بنانے اور پنجاب و خیبر پختونخوامیں کھوئی پوزیشن کی بحالی کے لئے بہت تھے لیکن ایلڈرزآف پی پی کا اجتماعی کردار انتہائی مایوس کن ثابت ہوا جن میں بے نظیر جیسی جاندار قیادت سے محرومی کے بعد اپنے مافی الضمیر کا اظہار محال ہوگیا، یا وہ بھی نمک کی کان میں پھنس کر نمک ہی بن گئے، زیادہ تو یہ ہی لگتا ہے۔ پی پی کی موجودہ کمسن قیادت بھی اسی کان میں داخل ہوتی جا رہی ہے، حالانکہ کراچی کے مایوس ووٹروں کا زندہ مگر غائب ’’دیوتا‘‘ جس طرح فقط ٹی وی اسکرین سے ’’ووٹرز‘‘ کو عزت بانٹ کر مسحور کرتا تھا، اس میں کراچی کی پارلیمانی طاقت اپنے تمام مثبت پہلوئوں سے محروم ہو کر ’’دیوتا‘‘ کے پیدا کئے مصنوعی اور سیاسی سحر میں مغلوب ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ تو وقت تھا کہ ملک میں پی پی کا قلعہ لاہور قصہ پارینہ ہوگیا تو وہ کراچی کو ہی اپنے سندھ میں پارلیمانی غلبے کا قلعہ بنا لیتی۔ علاقائی جماعت تو ڈھنگ کی اور طاقتور بنتی۔ اس کے بڑے ذمے دار حکومتوں میں آنے والے کرپٹ پارٹی رہنمائوں سے زیادہ بگڑی پارٹی کے ایلڈرز بنے۔ اسی صورت حال میں جب زندہ مگر غائب ’’دیوتا‘‘ کا اثر کراچی میں کافور ہوتا نظر آیا تو فقط پی ٹی آئی ہی خالی جگہ پُر کرتی آئی جو اس نے شہر عظیم کی سب سے بڑی پارلیمانی قوت بن کر کردی۔ کراچی شناس کراچی کے ہی منجھے صحافی مظہرعباس کا اپنے کالم میں اٹھایا یہ سوال پی پی کے لئے ہے تو ملین ڈالر کا کہ کراچی میں پی پی اپنے حب لیاری میں بھی اپنی انتخابی شکست کے بعد یہ نہ سمجھ پائی کہ اگر لیاری کےبھی ہر گھر میں بھٹو نہیں رہ گیا تو کہاں رہ گیا؟ افسوسناک امر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو بھی شہر قائد میں اپنی سیاسی فتح سنبھالنی نہیں آرہی۔ حالیہ اور جاری گھمبیر صورتحال نے تو تبدیلی پارٹی کایہ پول بھی کھول دیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین