• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو عشق کرنے کی کوئی عمر نہیں لیکن 18سے 25سال تک کی عمر میں ہر کوئی عشق کرتا ہے اور یہ خواب بھی لازمی دیکھتا ہے کہ وہ ایک بحری جہاز پر سوار ہے، اچانک سمندر کی تیز لہروں کے نتیجے میں جہاز تباہ ہو جاتا ہے لیکن صرف وہ اور ایک خوبصورت دوشیزہ سلامت بچتے ہیں اور ایک جزیرے پر زندگی گزارتے ہیں۔ جوانی میں یہ خواب تواتر سے آتا ہے جبکہ چالیس سال کے بعد اسے ذاتی کوشش سے دیکھنا پڑتا ہے۔ عشق مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے‘ ایک عشق وہ ہوتا ہے جو پہلی نظر میں ہو جاتا ہے‘ ہمارے ہاں یہ عشق فیس بک پر بکثرت دیکھا جا سکتا ہے۔ اِدھر کسی خوبصورت لڑکی نے پوسٹ لگائی، اُدھر سینکڑوں عشاق کے قافلے وال پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ لڑکی سے عشق کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز لڑکی ہے، باقی ہر چیز ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے۔ لڑکیاں فیس بک کی جس پوسٹ پر بھی ہاتھ ڈالیں وہ سونا بن جاتی ہے۔ پچھلے دنوں ایک محترمہ نے اپنے اسٹیٹس پر تازہ غزل کا شعر لکھا کہ

تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو

آخر کیا وجہ ہے کہ تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو

عشاق نے فوراً اس کا نوٹس لیا اور دس منٹ کے اندر اندر موصوفہ تین سو پینسٹھLikesسمیٹ گئیں۔ کمنٹس پر نظر ڈالی تو اکثریت کی مشترکہ رائے تھی کہ اتنا خوبصورت شعر کہنے پر شاعرہ کو ’’نوبل پرائز‘‘ ملنا چاہئے۔ کئی ایک نے حکومت کو بھی گالیاں دیں کہ میٹرو بنانے کی بجائے اِس شاعرہ کی طرف دھیان دو۔ شاعرہ نے جواب میں لکھا ’’میرے لئے کسی ایوارڈ کی کوئی حیثیت نہیں‘ آپ سب کی محبتیں ہی میرا اعزاز ہیں‘ سلامت رہیں‘‘۔

ہمارے ہاں عاشق کے لئے میٹرک میں فیل ہونا بہت ضروری ہے‘ تاریخ گواہ ہے کہ جو بھی عاشق میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوا عشق میں فیل قرار پایا۔ عاشق کو دنیا سے کیا مطلب؟ جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا؟ یہ ٹھیک ہے کہ عاشقی صبر طلب ہوتی ہے لیکن برصغیر کا عاشق بہت بےصبرا واقع ہوا ہے۔ جو بھی عاشق محبوب کو اس قسم کے شعر سنائے کہ ’’محبت بندگی ہے اس میں تن کا قرب مت مانگو… کہ جس کو چھو لیا جائے اسے پوجا نہیں کرتے‘‘۔ سمجھ جائیں کہ بکواس کر رہا ہے اور کوئی سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ وہ زمانے گئے جب عاشق اپنے محبوب کی خاطر نہریں کھودا کرتے تھے‘ آج کا عاشق نہ کھود سکتا ہے نہ سوچ سکتاہے۔

پرانے وقتوں میں عاشق اپنے محبوب کے عشق میں ڈوب کر دیوانے ہو جایا کرتے تھے‘ مجنوں بن جاتے تھے‘ کھانا پینا بھول جاتے تھے لیکن آج کا عاشق محبوب کا التفات حاصل کرنے کیلئے بیوٹی پارلر جاتاہے‘ فیشل کرواتا ہے‘ کانوں میں بالی پہنتا ہے … خدا گواہ ہے ایسے عاشقوں کو دیکھ کر اکثر احساس ہوتا ہے کہ یہ عاشق نہ ہوتے تو یقیناً معشوق ہوتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عاشق ہمیشہ کوئی مرد ہی ہوتا ہے‘ مجھے نہیں معلوم کہ عاشق کی تانیث کیا ہے۔ ویسے بھی لڑکیوں کو عاشق کہنا مساعی جمیلہ کی توہین ہے کیونکہ عاشق کے لفظ سے مونچھیں جھلکتی ہیں‘ یہ صرف مردوں پر ہی جچتا ہے۔ لڑکیاں عموماً عشق وغیرہ نہیں فرماتیں کیونکہ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وہ جس طرف بھی انگلی اٹھائیں گی پروانے قطار اندر قطار دوڑے چلے آئیں گے۔ عشق مجازی کا یہی مزا ہے کہ پانچ سو انار اور پانچ ہزار بیمار ہوتے ہیں۔

عشق تین حروف کا مجموعہ ہے ’’عین‘ شین اور قاف‘‘۔ عین کا مطلب ہے عقل سے عاری… شین کا مطلب ہے شرم سے عاری اور قاف کا مطلب ابھی میرے ذہن میں نہیں آرہا‘ کاش یہ قاف ‘ قینچی والا نہ ہوتا۔ میرے خیال میں عشق میں ایک ’’لام‘‘ بھی ہوتاہے لیکن عموماً لکھا اور پکارا نہیں جاتا‘ بالکل پیزے کی طرح جس میں ایک ’’T ‘‘بھی ہوتاہے لیکن خاموش رہتاہے۔ عشق کا لام بھی عموماً ’’میوٹ‘‘ رہتاہے اور اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب عاشق کی انگریزی میں سپلی آتی ہے یا رنگے ہاتھوں پکڑا جاتاہے۔کہتے ہیں کہ ’وہ جوانی جوانی نہیں جس میں کوئی کہانی نہ ہو‘… جن لوگوں کی زندگی عشق سے عاری گزری ہے وہ بھی کوئی نہ کوئی کہانی گھڑ ہی لیتے ہیں اور اس کہانی کا انجام عموماً ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ ’میں نے اپنے آنسو چھپا لیے تاکہ اس کا شوہر نہ دیکھ لے‘۔ پرانی فلموں میں ناکام عاشق اپنی محبوبہ کے شوہر کے سامنے پیانو پر ’اک ایسی لڑکی تھی جسے میں پیار کرتا تھا‘ گایا کرتے تھے اور پوری دیدہ دلیری سے بار بار محبوبہ کی آنکھوں میں جھانکتے تھے، محبوبہ بھی دل گرفتہ نظر آتی تھی لیکن شوہر صاحب کے کان پر نہ صرف جوں تک نہیں رینگتی تھی بلکہ بعض اوقات تو وہ اپنی بیگم صاحبہ کے عاشق کو اچھی آواز پر داد بھی دیتے نظر آتے تھے۔

عشق کے بارے میں مشہور ہے کہ عشق نہ ذات پوچھتا ہے نہ محل منارے، بالکل ٹھیک ہے، عشق صرف بینک اکائونٹ پوچھتا ہے۔ عاشق اگر امیر ہو تو عاشقی اور عاشی دونوں بغیر تگ و دو کے حاصل ہو جاتی ہیں لیکن غریب عاشق سوائے اپنے موبائل میں مکیش کے گانے سننے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ نے اکثر ہینڈ فری کانوں سے لگائے ایسے لڑکے دیکھے ہوں گے جو رات کو محلے کی گلیوں میں گھومتے ہوئے خود کلامی کرتے اور مسکراتے نظر آتے ہیں۔ یہ انجام سے بے خبر وہ عاشق ہوتے ہیں جنہیں یقین ہوتاہے کہ شکیلہ ان پر مر مٹی ہے۔ یہ اپنا نیٹ ورک بھی شکیلہ کے نیٹ ورک پر لے آتے ہیں اور پھر ’گھنٹہ پیکیج‘‘ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ان کے نزدیک عشق عبادت ہوتاہے لہٰذا یہ عبادت کے دوران گھر سے آنے والی کوئی کال سننا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔یہ ساری ساری رات شکیلہ کو محبت کی تھیوری اور پریکٹیکل سمجھاتے ہیں تاہم کئی مقامات پر شکیلہ کوان کی تصحیح کرنا پڑتی ہے۔ کسی سیانے نے کہا تھا کہ عشق ضرور کرنا چاہئے، یہ آ پ کاپیدائشی حق ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن ایک احتیاط لازم ہے کہ بیوی کو بالکل نہ پتا چلے ورنہ عشق کا لام اچانک بلند آواز میں ظاہر ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین