• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وہ‘‘ وہ نہیں مظلوم ترین معصومہ ہیں۔ خدارا! معصومہ کو بےنام مت کرو۔ ’’خاتون‘‘ ’’انہیں‘‘، ’’وہ‘‘، ’’اسے‘‘ کہہ کر ہی نہ پکارے جائو۔ والدین نے جو نام بھی دیا وہ قابلِ قدر اور محترم۔ اصل نام منکشف نہ کرنے پر صحافتی ضابطہ اخلاق کی پیروی بھی اپنی جگہ ضروری۔ یہ بھی اٹل کہ مظلوم ترین بھی معصومہ کو نظامِ بد نے بنایا، وہ نظامِ بد جو ٹوٹتا ہے نہ گھلتا ہے۔ اقتدار کی کوئی تبدیلی اس میں لچک نہیں لا سکتی، یہ اپنا ہی بد رنگ دکھاتا ہے۔ بنانے والوں کی مکاری سے بنا، یہ کتنا طاقت ور اور عوام کے لئے کتنا عذابِ مسلسل ہے۔ اب تو یہ بھیڑیوں کی افزائشِ نسل پر اُتر آیا ہے۔ سو معصومہ کا میڈیا نیم معصومہ یا محترمہ ہونا چاہئے۔ شہر لاہور یا پورے پاکستان میں عورتوں کے حقوق کی کوئی تنظیم، کوئی ماہر نفسیات یا سماجی کارکن ایسی ہیں جو محترمہ معصومہ کی یہ تھیراپی کر سکیں کہ انہیں مکمل یقین دلا دیں کہ وہ مظلوم ترین بننے سے پہلے کی طرح مکمل معصوم ہیں۔ ٹرامہ میں مبتلا خوفزدہ کمسن بچوں کی جلد سے جلد بحالی بھی ہمارے چینج ایجنٹس کے لئے چیلنج ہے۔ یہ کام متاثرہ فیملی پر ہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ کیا ہم سب مل کر معصومہ کو یقین دلا سکتے ہیں؟ ان پر جو کوہ گراں دوران سفر گرا، وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور معصومہ پوری قوم کی محترمہ قرار پائی ہیں۔ قوم نے انہیں تحفظِ نسواں اور بچوں کی حفاظت کے لئے ماں کی مثالی مزاحمت کا استعارہ بنا دیا۔ معصومہ آئرن لیڈی ہیں، وہ کب نہیں تھیں، ایک شائع شدہ فیملی پروفائل کے مطابق معصومہ فرنچ ایجوکیٹڈ، فرانس میں ہی پلی بڑھیں، پڑھیں۔ شادی گوجرانوالہ کے پیرس بیسڈ پاکستانی نوجوان سے کی۔ مشرقی روایات کے مطابق میکہ بھی نبھا رہی ہیں۔ ہمارے سوشل سسٹم کی کچھ شہرہ آفاق خوبیوں کے ساتھ کچھ قباحتیں (Taboos)بھی ہیں۔ میکے اور سسرال میں کچھ فاصلہ ہے لیکن وہ شوہر کے جذبات و مشکلات پر چوکس ہیں، چونکہ شاپنگ کے لئے گوجرانوالہ سے لاہور آئی تھیں جس کی مسافت اب لاہور سیالکوٹ موٹروے کھلنے کے بعد لاہور شہر کے ہی دو مقامات کے زیادہ سے زیادہ وقت سے بھی کم یعنی 40منٹ کی ہے، سو شاپنگ ختم کرکے کچھ وقت والدہ کے پاس گزارنے کے بعد پروگرام کے مطابق ہی واپسی کرنا چاہی، والدہ کے روکنے کے باوجود سسرال کا خیال کیا۔

قارئین کرام! یہ تو تھی محترمہ معصومہ کی فوری ضرورت جس کا پورا ہونا، مجرموں کی گرفتاری اور سزا جتنا ضروری ہے لیکن ہر دو ضرورتوں، متاثرہ ماں اور بچوں کی ’’سائنٹیفک بحالی‘‘ جو متاثرہ فیملی نے نہیں، ریاست اور سول سوسائٹی نے کرنی ہے اور ’’مجرموں کو جلد سے جلد فراہمی انصاف کے عمل سے گزارنا‘‘ اولین ترجیح ہے۔

اب آئیے، اس نظامِ بد کی طرف جس کی پیداوار صوبے کے ’’اعلیٰ پولیس حرارکی کے تیز تر دو سالہ عمل‘‘ کی آخری (Most Recent) شاہکار تعیناتی جنہوں نے متذکرہ ہولناک کیس پر میڈیا سے پہلی دو بدو ٹاک میں معصومہ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ وہ بارہ بجے کیوں نکلی؟ جی ٹی روڈ سے کیوں نہیں گئی؟ چلنے سے پہلے پٹرول کیوں نہیں چیک کیا؟ اس ’’حسن کارکردگی‘‘ کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت کچھ آ رہا ہے۔ اپوزیشن نے اسے اپنے مقصد کے لئے اچک لیا۔ حکومتی ترجمان ملزموں تک پہنچنے پر حکومت کو داد و تحسین کا مستحق قرار دینے کے لئے آئیں بائیں شائیں اور بوگس دلائل کے ساتھ مقابل آگئے ہیں۔ حیرت ہے کہ وہ ملزمان تک پہنچنے سے پہلے ناموں کی سیکریسی برقرار رکھ سکے، نہ قریب پہنچ کر پکڑ سکے لیکن پُرجوش ہو کر سرکاری کارندے سے مبارک سلامت کے چکر میں پڑ گئے، پھر اعلیٰ حکام، وزیراعلیٰ، وزیر قانون اور آئی جی سے پریس کانفرنس کا اہتمام کرا ڈالا، جو پروفیشلزم، سرکاری ترجمانی، میڈیا سیل، سرکاری تعلقاتِ عامہ کا مثالی اور بدترین ڈیزاسٹر ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بڑی بےرحمی سے متاثرہ معصومہ، ان کے بچوں اور فیملی سے لاپرواہو کر کیس سے متعلقہ مطلوبہ محتاط ابلاغ کے بجائے بوکھلایا سرکاری اور سیاسی ابلاغ ہو رہا ہے۔ معصومہ کے سرکاری اہل کاروں سے انتہائی تشویش اور خطرے کے ماحول میں ابلاغ (کالز) پر انہوں نے ٹال مٹول کا جو مجموعی روایتی رویہ اختیار کیا اس کا جو قابلِ تفتیش و مذمت تاخیری رسپانس ہوا، اس پر یہ سوال نہیں بنتے کہ سی سی پی او کی معصومہ کے خلاف ’’چارج شیٹ‘‘ کا اجراء ہی نہیں، حکومت کی جانب سے ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر کرنے والے ذمہ داران ابھی تک کیوں نہیں نکلے؟ یا ان کی انکوائری کیوں نہیں شروع ہوئی؟ جان و مال کے تحفظ حتیٰ کہ انٹرچینج پر روشنی کے بغیر اسے کیسے سفر کے لئے کھول دیا گیا اور یہ جو اینکر پرسن ٹاک شوز میں بتا رہے ہیں کہ انٹرچینج کے گرد و نواح کے تین دیہات جرائم کے گڑھ ہیں جہاں مشین گنوں سمیت اسلحے کی بڑی مقدار ہے۔ پولیس سب کچھ جانتی اور وارداتیں ان ہی کی طرف سے ہوتی ہیں۔ شعلہ بیاں پارلیمنٹرین گفتار کے غازی، وزیر مواصلات کو کیوں چپ لگ گئی؟ بلدیاتی انتخابات میں پولیس کے استعمال اور اس کے مطابق اعلیٰ عہدوں پر پولیس افسران کی مطلب اور اپنوں کی سفارش کے مطابق تقرری کے الزامات پہلے صحافیوں کی طرف سے لگے ہیں، اس کو اپوزیشن نے بعد میں اپنے جارحانہ ابلاغ کا حصہ بنایا ہے۔ وزیراعظم صاحب!یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ نے تو پورے نظامِ بد کو دیس نکالا دینے کا عزم کیا تھا اور اسی پر آپ وزیراعظم بنے۔ ’’موٹروے کیس‘‘ میں آپ کی لاڈلی وزارتِ اعلیٰ کے ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر رک ہی نہیں رہے۔ کیا سوال اب بھی یہ ہی بنتا ہے کہ وہ کیوں نکلی؟ یا یہ کہ یہ کیوں نہیں نکالے جا رہے؟ ہر شریان میں گندے خون اور کلاٹس کی اطلاع آپ کو نہیں مل رہی؟ معاشرہ کینسر زدہ نہیں ہو گیا؟اِس کے لئے شوکت خانم اسپتال کی مینجمنٹ کے مساوی معیاری گورننس مطلوب نہیں ؟لیکن بقول آپ کے اپنے ریاستی سیٹ اپ اور معاشرے کو لگے کینسر کا علاج اسپرین سے ہی نہیں کیا جا رہا ؟

تازہ ترین